پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی
جنرل مشرف نے بھی جنرل ایوب خاں کی طرح انتخابات کے انعقاد سے قبل ایک عدد مسلم لیگ قائم کی۔ایوب خاں پاکستان کے صدر کے علاوہ مسلم لیگ (کنونشن) کے صدر بھی بن گئے تھے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو اس لیگ کے سیکرٹری جنرل نامزد ہوئے ۔جنرل مشرف نے بھی ایک عدد مسلم لیگ بنائی مگر خود اس کاصدر بننے کی بجائے چوہدری شجاعت حسین کو اس کا صدر بنوایا۔شروع شروع میں لاہور سے میاں اظہر (سابق گورنر) کا نام سننے میں آتا رہا مگر مشرف کے پرنسپل افسرطارق عزیز وڑائچ نے اپنے ہی قبیلے کے شجاعت حسین کو مسلم لیگ کاصدربنوالیا۔اس طرح جو مسلم لیگ قائم ہوئی اس کانام مسلم لیگ (قائد اعظم) رکھا گیاجو عرف عام میں مسلم لیگ (ن) کی طرح مسلم لیگ (ق) کہلائی۔سابق صدرپاکستان فاروق لغاری کی ملت پارٹی اورچوہدری حامدناصر چٹھہ کی مسلم لیگ (ج) بھی مشرف کے سائبان کے نیچے پناہ گزین ہوئیں ۔2002ءمیں قومی انتخابات کاڈھول بجا اور سارے سیاسی مچھندررقصاں ومستاں جھومتے جھامتے ان میں حصہ لینے انتخابات میں کود گئے۔نواز شریف خود اگرچہ سعودی عرب میں تھے مگر انکی مسلم لیگ (ن) نے جم کرانتخاب لڑا۔انتخابات کے نتائج آنے پر جنرل مشرف نے بلوچستان کے مسلم لیگی میرظفراللہ خان جمالی کو وزیر اعظم نامزد کردیا ۔چونکہ مطلوبہ ووٹ پورے نہیں ہورہے تھے اس لئے اسمبلی پر©©"کام" شروع کردیاگیا۔ کچھ نیب نے ہاتھ بٹایا اور کچھ کام پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے ۔سو ایک ووٹ کی اکثریت سے ظفراللہ جمالی وزیر اعظم بن گئے ۔
یہ 2005 ءکی بات ہوگی میں نیویارک میں مقیم تھا۔محترمہ بینظیر بھٹو پارٹی کے ایک مقامی راہنما ڈاکٹر حسن کے گھر قیام پذیر تھیں ۔مجھے پیپلز پارٹی کے چوہدری سروراس وفد میں ساتھ لے گئے جس نے ان سے ملاقات کی اور رات کا کھانا بھی ان کے ساتھ کھایا۔دوران گفتگو محترمہ نے بتایا کہ ہم تو پرویز مشرف کے ساتھ چلنا چاہتے تھے مگر جب اسکے ایک جنرل نے ہماری پارٹی کے ارکان اسمبلی کوتوڑ کرفیصل صالح حیات کی قیادت میں اپنے ساتھ ملالیاتواس کے ساتھ پھر چلنا ممکن نہ رہا۔
بینظیر بھٹو اکثر امریکہ میں ہی مقیم رہ کر سینٹ کے ارکان سے ملتی رہیں اورانہیں اپنی اہمیت سے آگاہ کرنے کے علاوہ جنرل مشرف کو ہٹانے کی خواہش کااظہار بھی کرتیں۔ مگر "دہشت گردی کیخلاف جنگ"میں امریکی مشرف کے علاوہ کسی دوسرے کو پاکستان کی ریاست کا سربراہ ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔پارلیمنٹ بھی وزیر اعظم جمالی اور مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے ذریعے چلتی رہی ۔ڈیڑھ دوسال کے بعد مشرف نے وزیر اعظم جمالی کو چلتا کیااورکسی نئے وزیر اعظم کے انتخاب تک شجاعت حسین کو چارماہ کےلئے وزیر اعظم بنادیا۔ "فدوی شجاعت حسین" نے مکمل تابعداری کا مظاہرہ کیا اور شوکت عزیز کو اپنے ایک عزیز کے ضلع اٹک کے حلقے سے قومی اسمبلی کا رکن بنوایا توجنرل مشرف نے وزیر اعظم شوکت عزیز کوبنا دیا۔ کیسی کیسی مزاحیہ فلمیںسیاست کے نام پر ہمارے اس ملک میں چلائی جاتی رہی ہیں ۔اسکے بعد جنرل مشرف نے پے درپے وارکرتے ہوئے اس وقت تک حکومت کی جب تک اسکے ماتحت جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اسے ہٹانے کا فیصلہ نہیں کرلیا۔بالکل اس طرح جیسے یحیٰ خاں نے ایوب خاں کوہٹانے کا فیصلہ کیا۔
ایوب خاں کیخلاف عوامی تحریک ملک گیر تھی اوراس میں زندگی کے تمام طبقات شامل تھے مگر لوگ ابھی تک مشرف کے خلاف کسی قسم کی عوامی تحریک چلانے کیلئے باکل تیارنہ تھے۔اس مقصد کیلئے جنرل کیانی موقع ڈھونڈتے رہے ۔جب ڈرامے کا مسودہ مکمل ہوگیاتو پاکستان کے اسی چیف جسٹس کو ایک روز ایوان صدر میں طلب کرکے اس سے استعفیٰ طلب کیاگیا جوجنرل مشرف کے تمام مشاغل کا ساتھی اور اس کی غیر آئینی فوجی حکومت کو سند جواز عطا کرنے والا تھا اور جس نے جنرل مشرف کو آئین میں "ترمیم"کے نام پر کھلواڑکرنے کی بھی کھلی چٹھی دی تھی۔مگر اب وہ مشرف کی بجائے جنرل کیانی کے کیمپ میں تھا ۔جونہی جنرل مشرف ایوان صدر سے نکلا تو ڈرامے کے اگلے سین کے مطابق ایوان صدر کے دروازے پر آ ئی ایس آئی کے لوگ آگئے ۔اندر سے چیف جسٹس افتخارچوہدری نکلا تو اسے بالوں سے پکڑلیاگیا۔چاروں طرف کیمرے لگائے گئے تھے جنہوں نے یہ منظر قلمبند کیا اور میڈیاچینل کی سکرینیںچیخنے چلانے لگیں کہ "انصاف کا خون ہوگیا" سکرپٹ “کے عین مطابق اس روز لاہورہائی کورٹ بارکااجلاس رکھاگیاتھا،جس کے شرکاءنے یہ خبرسن کرمال روڈ کارخ کیایہاں بھی کیمروں نے عین موقع پر فلمبندی کرکے یہ مناظر اپنے اپنے چینل پر چلادیئے۔تحریک شروع ہوچکی تھی ۔ وکلاءسڑکوں پر نکل ّآئے مگر ہرطرف سے جنرل کیانی کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ عام لوگ اس تحریک میں شامل نہیں ہورہے ۔چوہدری اعتزازاحسن نظمیں پڑھ پڑھ کے تھک گئے ۔منیر اے ملک،حامد خاں کے علاوہ علی احمد کرد اپنی سفید زلفیں جھٹک جھٹک کرتقریر یں کرتے رہے ،میڈیا24 گھنٹے اس کام میں مشغول ہوگیامگر وکلاءصاحبان کے علاوہ دیگر کوئی طبقہ سڑکوں پر نہ آسکا۔حاضری لگوانے کیلئے سیاسی جماعتوں کے کچھ لوگ اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر اکٹھے ہوتے رہے اس سے آپ اندازہ کرلیں کہ ڈکٹیٹر کتنا کمزور ہوتا ہے کہ اپنے خطرے کی بوپاکربھاگ جاتا ہے۔اگرچہ پنجاب اسمبلی نے جنرل مشرف کو سات باروردی میں منتخب کرنے کا"پھوکا" جوابی واربھی کیا تھا۔جنرل مشرف نے پہلے فوج کی کمان میں تبدیلی کی اور اپنی جگہ جنرل کیانی کو فوج کاسربراہ بنادیا اور ملک میں ایمرجنسی کانفاذ بھی کردیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو بھی اسکے دور میںجان کا نذرانہ دے گئیںمگراقتدار اب جنرل مشرف کے ہاتھ سے نکل رہا تھا اور آخرکار یہ جرنیل بھی آٹھ سال تک حکومت کرکے فارغ ہوا۔اس کے بعد سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آکر کیاسے چلائے یہ ایک الگ موضوع ہے۔
نوٹ:۔اگلے ہفتے میں دوماہ کیلئے نیویارک جارہا ہوںانشاءاللہ واپسی پر آپ سے ملاقات ہوگی میرے لئے دعا فرماتے رہیے گا۔