• news

سیلاب کی تباہ کاریاں

چونکہ پاکستان مون سون کے علاقے میں واقع ہے۔ اس لئے جولائی اور اگست کے مہینوں میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب آتے رہتے ہیں۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ۔ 1973ءاور 2010ءمیں آنے والے سیلابوں نے بہت تباہی مچائی تھی لیکن ا س سال سیلاب نے تمام پچھلے سالوں میں سیلابوں کی نسبت بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔موجودہ سیلاب نے جو بلوچستان میں شروع ہوا تھا پورے پاکستان میں تباہی مچا دی لیکن سب سے زیادہ نقصان بلو چستان میں ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بلوچستان کے پہاڑوں کے دامن میں واقع تمام علاقے پہاڑوں سے آنے والی مون سون کی بارش کے ر یلے کی تاب نہ لا سکے۔ اس لئے بہت جانی اور مالی نقصا ن ہوا۔زیادہ نقصان ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ چونکہ بلوچستان کی آبادی وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہے ۔ بارشوں سے سڑکیںاور پل بہہ جانے کی وجہ سے سیلاب زدگان کے بارے میں بروقت معلومات صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو نہیں پہنچ سکیں۔ لیکن یہ بات بہت حوصلہ افزا ہے کہ نجی فلاحی اداروں اور تنظیموں نے بہت تیزی سے سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لئے بلوچستان کا رُخ کیا اور اپنی بساط کے مطابق لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کی۔ الخدمت کے کارکن اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر لوگوں کو بچاتے رہے۔ ایک اور بات جو بلوچستان کو دوسرے تمام صوبوں کے مقابلے میں منفرد مقام دیتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ حکومت اور دوسری فلاحی تنظیموں کی مدد پہنچنے سے پہلے ہی ہنگامی طور پر سرگرم ہو جاتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے اصول کے مطابق لوگوں کی مصیبت میں دل و جان سے مدد کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی انفرادی کاوشوں سے بے شمار لوگوں کی جان بچانے میں مدد ملی۔ یہ سوشل ورکر ادیب بھی ہیں۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازم اور اعلیٰ افسران بھی۔چونکہ یہ بہترین تنظیمی تجربہ رکھتے ہیں اس لئے امدادی کام احسن طریقے سے انجا م دیتے ہیں۔ایسے افراد کی ایک بڑی فہرست ہے۔ جن کو میں ذاتی طو ر پر جانتا ہوں۔ ان میں وحید عامر بلوچ، ببرک کارمل بلوچ، ایوب بلوچ اور منیر بلوچ شامل ہیں۔ یہ بہت باہمت اور انسان دو ست لوگ ہیں۔ جو ہر وقت مشکل میں گھرے لوگو ں کی مدد کے لئے پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ اپنے قلم اور انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے قابل تقلید فلا حی کا م انجام دے رہے ہیں۔ اَب بارشوں کا زور ٹو ٹ گیا ہے اور اُمید ہے چنددنوں تک بارش کا پانی بھی آہستہ آہستہ اُتر جائے گا۔ اس کے بعد ایک بہت اہم مرحلہ شروع ہوگا اور وہ ہے لاکھوں کی تعداد میں بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بے گھر افراد کی بحالی کا۔غیر ملکی امداد اور ملکی ذرائع سے جمع ہونے والے عطیات کا صحیح اور شفاف طریقے سے استعمال ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جس کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بہت محتاط طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ تاکہ بحالی کا کام جلد اور احسن طریقے سے مکمل کیا جا سکے۔امدادی سامان کی شفاف طریقہ سے متاثرین میں تقسیم نہ کرنے کے بے شمار واقعات ہوئے ہیں۔ میرا تعلق بھی صوبہ بلوچستان سے ہے اور بلوچ دوستوں سے رابطہ رہتا ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ حال ہی میں بدقسمتی سے غیر شفاف طور پر اور اقربہ پروری سے ا مدادی سامان کی تقسیم میں صوبائی ڈساسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA)بھی ملوث پائی گئی۔ اسی طرح کے واقعات دوسرے صوبوں میں بھی ہوئے ہوں گے ۔ اس لئے اس کے سّدباب کے لئے مو¿ثر مانٹیرنگ ونگ تشکیل دینے ہوںگے۔ تاکہ حقدار تک امداد پہنچ سکے۔کئی ایسے دل خراش واقعات بھی پو رے پاکستان سے رپورٹ ہوئے ہیں کہ بااثر ز میند ار و ں نے ا پنی کھڑی فصلوں کو بچانے کے لئے کئی بند و ں میں شگاف ڈال کر آبادی والے علاقوں میں سیلا ب کا رُخ موڑ دیا۔ ایسے واقعات کی باقا عد ہ تفتیش ہونے چاہئے اور ملوث افراد کو سخت ترین سزا دینی چا ہئے۔اسی طرح پانچ بھائیوں کے ایبٹ آباد میں او نچی چٹان پر چھ گھنٹے تک امداد کا انتظار کرنے کے بعد سیلاب بردہو جانے کا روح فرسا واقعہ بدانتظامی اور بے حسی کی بدترین مثال کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔ اس واقع کی بھی تفتیش ہونی چاہئے اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ شکر ہے کہ وفاقی حکومت نے اس واقع کے بعد فوج کو طلب کر لیا اور انہوں نے حسب روایت بہترین خدمات انجام دیں اور پہاڑ ی علاقوں میں پھنسے ہوئے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا برق رفتاری سے انخلاءکرکے عوام کے دل جیت لئے۔ انہوں نے سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے خوراک پہنچا کر بھوک سے مرنے سے بچالیا۔یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوج کو طلب کرنے میں اتنی دیر کیوں ہوئی۔ اس بارے میں بھی وفاقی حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن