"خبردار"
مسئلہ اشیاءخوردونوش کا ہے، مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ہے، مسئلہ ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ہے، مسئلہ ان لوگوں کا ہے جن کے وسائل میں اضافہ نہیں ہوا لیکن مسائل میں اضافہ ہو چکا ہے اور آنے والے دنوں میں اس حوالے سے مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بالخصوص سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے ہر آنے والی تباہی سے معمول کی زندگی کو بڑا دھچکہ لگا ہے۔ ابھی تو صرف لوگوں کے گھر بنانے یا ان زندگی کے لیے ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی بات ہو رہی ہے کیونکہ یہ سب سے اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ کتنے بڑے پیمانے پر زرعی رقبہ تباہ ہوا ہے۔ اس تباہی کے نقصانات بھی ہمیں ہی برداشت کرنا ہوں گے۔ اب تو آئی ایم ایف نے بھی موجودہ مہنگائی اور آئندہ برس مزید مسائل کی نشاندہی کر دی ہے۔ مہنگائی نے سب کو متاثر کیا ہے چونکہ سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا ذہن اس طرف ابھی گیا نہیں ہے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی ناصرف قابو سے باہر ہو چکی ہے بلکہ مسلسل اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں میں اضافہ ہوتا ہی چلا جا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ معمول بن چکا ہے۔ حالانکہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں کہ جب انسان بے بس ہو جاتا ہے کیونکہ ذرائع آمدن میں کہیں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ مہنگائی پینتالیس فیصد سے بھی زائد ہو چکی ہے اور نصف سینچری کے قریب ہے۔ نجانے یہ نمبرز کہاں رکیں گے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ کہیں رکنے کے امکانات نہیں ہیں۔
ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں مہنگائی میں مزید 1.31 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک ہفتے میں اکتیس اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، پیاز 51 روپے 52 پیسے، ٹماٹر بیس روپے ستاسی پیسے اور دال مونگ کی قیمت میں سترہ روپے اکیس پیسے فی کلو اضافہ ہوا۔ ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر ایک سو اٹھار روپے 63 پیسے، آلو 4 روپے 55 پیسے، انڈے فی درجن آٹھ روپے انتالیس پیسے مہنگے ہوئے۔ آٹا بھی اونچی پرواز پر ہے۔بیس کلو آٹے کا تھیلا اٹھارہ روپے تینتیس پیسے اضافہ ہوا۔ دال ماش، روٹی، دودھ، دہی، چینی اور مٹن کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا، ماچس، چاول، جلانے کی لکڑی، کیلے اور لہسن بھی مہنگے ہوئے۔ کچھ بچا نہیں کہ جس میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بڑے مسائل حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ عام آدمی کو ریلیف دینے پر کون بات کرے گا۔ یہ مسائل کیسے حل ہوں گے، حکومت کی معاشی ٹیم کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ اگر یہ قیمتیں اسی رفتار سے بڑھتی رہیں تو لوگوں کے پاس خریدنے کے لیے پیسے نہیں بچیں گے، قوت خرید کا مسئلہ ہو گا، جرائم میں اضافہ ہو گا۔ آج خبریں دیکھیں آپ کو ہر طرف یہی مسئلہ نظر آئے گا پاکستان میں یا تو سیلاب ہے یا پھر عمران خان ہے اور نہیں ہے تومہنگائی ہے، آئی ایم ایف ہے یا نہیں ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس تیرہ ماہ ہیں لیکن میرے پاس شاید اتنا وقت بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی ٹیکس دینا نہیں چاہتا، ہر ملک سے پیسہ مانگ رہے ہیں،سابق حکومت نے آئی ایم ایف سے نومبر میں معاہدہ کیا اور پھر ایندھن پر سبسڈی دے کر معاہدہ توڑ دیا۔ ہماری پہلی ترجیح آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی تھی۔
وزیر خزانہ اپنی جگہ یقیناً ٹھیک ہوں گے لیکن انکے پاس عام آدمی کے مسائل کا کوئی حل ہے، یہ مہنگائی کیسے نیچے آئے گی شاید وہ بتانے سے بھی قاصر ہوں۔ یہ تو ایک طرح سے ہنگامی حالات ہیں۔ ملک میں معاشی ایمرجنسی تو نافذ ہے بس اعلان ہونا باقی ہے۔ معاشی ٹیم کو بیٹھنا چاہیے اگر کوئی ٹیکس نہیں دیتا تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ٹیکس سے بھاگنے والوں کو ٹیکس اکٹھا کریں یا یہ بوجھ بھی غریب عوام نے اٹھانا ہے۔ جو لوگ کمائی کرتے ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ روزانہ تقاریر کرنے سے بہتر ہے اصل کام پر توجہ دی جائے۔
پاکستان میں مہنگائی کی صورت حال اور اس حوالے سے مستقبل میں سامنے آنے والے مسائل کے حوالے سے آئی ایم ایف کی رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آئندہ برس بھی مہنگائی کی شرح برقرار رہے گی مہنگائی برقرار رہنے اے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہو گا اور مہنگائی کی وجہ سے ملک میں مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح بیس فیصد رہنے کی توقع ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے کئی وعدوں اور اہداف پر عمل درآمد نہ ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ان حالات میں جہاں سیلاب نے تباہی پھیلائی ہے وہیں ہماری بدانتظامی نے بھی مسائل میں اضافے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن بدقسمتی سے ہم آج بھی سیاست سیاست ہی کھیل رہے ہیں اور نجانے یہ کھیل کب تک کھیلا جاتا رہے گا۔ سیلاب آتا ہے تو ہم تباہ ہوتے ہیں لیکن یہ جو بد انتظامی کا سیلاب ہے اس کے ذمہ داروں کا تعین بھی تو ہونا چاہیے کاش کہ حکمران طبقہ ملک کے کروڑوں غریبوں اور وسائل سے محروم افراد پر رحم کرتے ہوئے چند سال صرف اور صرف اس ملک اور اس کے غریب عوام کے نام کر دے تاکہ ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلوں کو تو ایک بہتر خوشحال اور مسائل سے پاک پاکستان مل سکے۔