• news

کوئی غلط کہہ رہا ہے تو کہنے دیں، عدالت کا توہین کے قوانین پر یقین نہیں: جسٹس اطہر 


اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ اس عدالت نے نہ کسی کو اپروچ ہونے کی اجازت دی ہے نہ کسی سے رابطہ رکھا ہے، خوشی اس بات کی ہے کہ ہرکوئی کمپین چلاتا ہے لیکن اس کورٹ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ سچ خود بخود کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ حیرانگی یہ ہوئی قابل احترام صحافی مجھے وہ کچھ بتا رہے ہیں جو مجھے بھی نہیں پتہ، یہ کورٹ کسی چیز سے گھبرانے والی نہیں ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے، میں پھر کہتا ہوں یہ اس عدالت کا احتساب ہے ، کورٹ ہمیشہ فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے، بیانیے بنتے ہیں جتنا کرنا ہے کر لیں عدالت نے وہی کرنا ہے جو کرتی آرہی ہے، لیکن اپنے آپ سے پوچھیں ہم اس ریاست کو کس طرف لیکر جارہے ہیں، باقیوں کو چھوڑیں کیا صحافیوں کے یہ کام کرنا چاہیے؟،2018 سے اب تک جو کچھ ہوتا آرہا ہے وہ دیکھ لیں، یہ کورٹ آپ کو کبھی نہیں روکے گی جو کہنا ہے کہتے رہیں، یہ عدالت توہین عدالت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتی، اگر کوئی غلط بھی کہہ رہا ہے تو غلط بھی کہنے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نہ یہ عدالت پہلے کسی چیز سے متاثر ہوئی اور نہ اب ہوگی، میرے خیال میں یہ واحد عدالت ہے جس پر ہر قسم کی کمپین چلائی گئی، تنقید اس عدالت کی طاقت ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت کو تین سالوں سے لگ رہا ہے کہ صحافی ہی اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، آج تک ہم آئین کو مکمل طور پر بحال نہ کرسکے، اگر اس ملک میں آئین مکمل طور پر بحال ہو تو سب کچھ ٹھیک ہوگا، عدالت نے کہاکہ اقوام متحدہ سے رپورٹ آئی ہے اور وہ سارے صحافیوں کے حوالے سے کیسز سے متعلق ہے، جن کیسز کے حوالے دیے گئے اتفاق سے وہ سارے کیسز اس عدالت میں زیر سماعت ہیں، اس خط میں یہ نام ہے کیونکہ وہ 2021 میں آیا تھا اب نیا کوئی خط آئے تو اس میں شاید یہ نام ہو، اس معاملے پر جرنلسٹس ایسوسی ایشن، پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کو سوچنا ہوگا، اقوام متحدہ ہمیں یہ سب کیوں بتا رہا ہے، کیا کوئی چیف ایگزیکٹو کہہ سکتا ہے کہ ہمیں ان چیزوں کا نہیں پتہ، تین سال کہتے رہے یہ عدالت کسی کی دوست ہے اب دوستی تبدیل ہوگئی تو کہتے ہیں کسی اور کی دوست ہے، آپ کو عدالت ہی نہیں آنا چاہیے وفاقی حکومت کو یہ معاملہ دیکھنا چاہیے، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لکھ کر دیں کہ یہ ریاست نہیں ہے ختم ہو گئی ہے، اقوام متحدہ کا رپٹ وار والا خط ان سب کے لیے بہت ہے، کیا موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ رپٹ وار کا ایک اور خط ہمارے پاس آئے، آئین کی بحالی کے لئے فریڈم آف سپیچ پر قدغن نہیں ہونی چاہیے۔
 جسٹس اطہر 

ای پیپر-دی نیشن