• news

موسمیاتی تبدیلیاں اور حالیہ سیلاب

پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں ہو رہا ہے۔ بار بار گرمی کی لہر یا ہیٹ ویو کا آنااور موسمِ سرما کے بعد موسمِ بہار کی بجائے براہِ راست موسمِ گرما کی آمد بھی واضح طور پر یہ بتارہی ہے کہ ہمارے ہاں موسموں کا معمول تبدیل ہورہا ہے۔ موسم کی شدت میں گزشتہ کئی دہائیوں سے تیزی سے اضافہ نظر آرہا ہے اوراس سال درجہ¿ حرارت 53ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا۔ برف کے پہاڑ پگھلنے سے آنے والے پانی اور معمول سے زیادہ بارشوں نے دریاو¿ں اور ندی نالوں میں طغیانی اور خطرناک سیلابی صورتحال کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں لوگوں کو ریسکیوکرنے کے لیے پاک فوج اور بحریہ کی خدمات طلب کر لی گئی ہیں۔ ملک میں دل دہلا دینے والے واقعات رو نما ہو رہے ہیں۔ ایک طرف دریائے سوات نے قیامت ڈھائی ہے تو دوسری جانب کوہِ سلیمان اور پنجاب کے جنوب مغربی علاقوں میں سے تونسہ، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور خیبر پختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، کوہستان زیریں، دیر زیریں اور نوشہرہ سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ صوبہ سندھ کے اضلاع مٹیاری، سانگھڑ، شکار پور، دادو کے دو سو دیہات سیلاب کی زد میں آ ئے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کا واحد زرعی علاقہ نصیر آباد اور جعفر آباد پانی میں بہہ گئے ہیں۔ بلوچستان کو باقی صوبوں سے ملانے والی تمام بڑی سڑکیں سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کا دوسرے صوبوں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔
سیلابی ریلوں سے بڑے بڑے ہوٹل اور پل زمین بوس ہوچکے ہیں۔ حالیہ خوفناک بارشوں اورسیلاب کے باعث ملک کا تقریباً 60فیصد حصہ زیرِ آب آچکا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوا تین کروڑ سے زائد لوگ براہِ راست متاثر ہوئے ہیں جن میں سے ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ¿ اجل بن چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، اب تک 162 پل تباہ ہو گئے ہیں اور 3500 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں۔ اس تباہی کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر تقریباً 10ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ لوگوں کے گھر ، مویشی اور مال پانی میں مکمل طور پر ڈوب گئے ہیں۔ اسکول، ہسپتال اور خوراک کے ذخائر سب کچھ سیلاب کی نذر ہو گیا۔ لوگ کھلے آسمان تلے سڑکوں پر یا عارضی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ڈائریا، جلد کی بیماریاں اور گیسٹرو کے وبائی امراض سر اٹھا رہے ہیں۔ متاثرین کو اس وقت خوراک ، پینے کے صاف پانی اور ادویہ کی ہنگامی بنیاد وں پر ضرورت ہے۔
آفت زدہ قرار دیے گئے 66 اضلاع کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرین کی بحالی کے لیے پاکستان سے تعاون کریں۔ کچھ ممالک نے اس حوالے سے براہِ راست تعاون بھی کیا ہے جن میں امریکا نے ایک ملین ڈالر، برطانیہ نے 1.7 ملین ڈالر، اور یورپی یونین نے 1.8 ملین ڈالر دیے ہیں۔ علاوہ ازیں، ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات نے 40 ہزار ٹن امدادی سامان مہیا کیا ہے۔ امریکا نے چند روز پہلے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے ذریعے پاکستان میں شدید سیلاب سے متاثرہ لوگوں اور آبادیوں کی مدد کے لیے تیس ملین ڈالرکی اضافی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں معیشت زبوں حالی کا شکار اور آئی ایم ایف کی محتاج ہے، حکومت کے لیے انفراسٹرکچر کی بحالی، گھروں کی تعمیر اور دوسری بنیادی ضروریات مہیا کرنا مزید مشکل ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان پر قابو پانے میں پاکستان کو کتنا وقت لگے گا؟
دھرتی پر بسنے والے تمام انسان لڑی میں پروئے گئے موتیوں کی طرح کئی حوالے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا دھرتی کے جوکھم اور زمین کے دکھ کسی ایک خطے ، قوم یا شخص کے دکھ نہیں ہوتے بلکہ احساس کی حامل ہر دیکھتی آنکھ، ہر سنتا کان اور ہر دھڑکتا دل انھیں محسوس کرتا ہے اور ان سے متاثر ہوتا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں رہنے والے ہم جیسے ہی لوگ ہیں، ہمارے جیسے ہی زبان بولتے ہیں،ہماری طرح ہی خواب دیکھتے ہیں، یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں جو آج ایک کٹھن اور تکلیف دہ دور سے گزر رہے ہیں۔ ریاست کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ان کے نقصانات کا ازالہ کر سکے۔ خدارا مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بے گھر اور مصیبت زدہ بھائیوں کا سہارا بنیں۔ ان لوگوں کا سہارا جنھیں پہننے کے لیے کپڑے، رہنے کے لیے گھراور کھانے پینے کے لیے اشیاءمیسر نہیں۔ یقینا ہماری چھوٹی چھوٹی کاوشیں اور امداد ان سیلاب زدگان کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن