’گائے گی دنیا گیت میرے ‘
جس کا ظاہر اس کے باطن سے اچھا ہے وہ مکار ہے اور جس کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے وہ ولی ہے، ولایت شخصیت نہیں کردار میں نظر آتی ہے سید ابولاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی کسی ولی اللہ کو دیکھا ہے..؟ سید مودودی رحمہ اللہ نے جواب دیا ہاں ابھی 2 دن پہلے ہی لاہور اسٹیشن پر دیکھا ہے۔ ہماری گاڑی جیسے ہی رکی تو قلیوں نے دھاوا بول دیا اور ہر کسی کا سامان اٹھانے اور بھاگنے لگے لیکن میں نے ایک قلی کو دیکھا کہ وہ اطمینان سے نماز میں مشغول ہے۔ جب اس نے سلام پھیرا تو میں نے اسے سامان اٹھانے کو کہا۔ اس نے سامان اٹھایا اور میری مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا۔میں نے اسے ایک روپیہ کرایہ ادا کردیا۔ اس نے 4 آنے اپنے پاس رکھے اور باقی مجھے واپس کردئیے۔ میں نے اس سے عرض کی کہ ایک روپیہ پورا رکھ لو لیکن اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :نہیں صاحب میری مزدوری 4آنے ہی بنتی ہے۔
ولی اللہ دنیا میں جس بھی روپ میں ہوتا ہے یہ روپ اس کا اپنا بنایا ہوا نہیں ہوتا۔یہ اللہ کے ولی جب دنیا والوں کو ملتے ہیں تو کوئی موچی کے روپ میں کوئی قلی کے روپ میں کوئی حکیم کے روپ میں اور کبھی کبھی کسی بادشاہ کے روپ میں ہوتے ہیں دنیا والوں میں سے کوئی ان کی پرکھ کر جاتا ہے اور کوئی ان کے روپ دیکھے بنا آگے گزر جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک روحانی شخصیت حضرت حکیم شیخ عبداللطیف رحمة اللہ علیہ جو لطیف سرمہ والے مشہور تھے آپ نے اپنی زندگی میں ایک ایسا سرمہ بنایا جس کا نام ترک عینک رکھا اس سرمہ کے مسلسل دن میں دو بار استعمال کرنے والے کی عینک سے جان چھوٹ جاتی ہے یہ ایک کراماتی سرمہ ہے۔ بہرحال آپ ایک کامل ولی اور سچے عاشق رسول تھے وہ بہت پیارے انسان تھے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جانے کا فن بخوبی رکھتے تھے آپ درویش صفت انسان دوست ہر دل عزیز اور شفیق القلب خداداد صلاحیتوں کے بھرپور مالک تھے اور بڑے باہمت اور پر عزم تھے ایک فاضل محقق محنتی شگفتہ میزاج کھلے دل و دماغ سے کام لینے والے اور ہمیشہ ہشاش بشاش ہر وقت بن ٹھن کر رہنے والے تھے لاہوریے انہیں شمالی لاہور کا دولہا کہا کرتے تھے آپ کے بارے میں آپ کی زندگی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ آپ کی ڈکشنری میں انکار کا لفظ ہے ہی نہیں یہی وجہ تھی کہ جو بھی آپ کے گھر یا دفتر میں کسی کام کے سلسلے میں آیا۔ اسے آپ نے خالی نہیں جانے دیا اس کی جس حال میں جس طرح جیسے ہوسکی بھرپور مدد کی اب ان کی جگہ پر ان کے بڑے بیٹے حکیم شیخ حمید لطیف صاحب ان کے فیض کو جاری رکھے ہوئے ہیں ان سے ہماری ایک نشست اس وقت ہوئی جب راقم الحروف کی آنکھ میں مختلف آئی اسپیشلسٹ کو چیک کروانے کے بعد پتہ چلا کہ ایک آنکھ میں سفید موتیا اتر رہا ہے اور ڈاکٹر حضرات نے مجھے عینک تجویز کردی تو پھر جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ صبح شام صرف ترک عینک سرمہ استعمال کریں جس کے استعمال کرنے سے مجھے فائدہ ہوا خیر سے ان کے بیٹے بھی انسانیت کی خدمت کرنے میں باپ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں انہوں نے اس ترک عینک سرمہ کے حوالہ سے اپنے باپ کا ایک واقعہ کچھ اس طرح سے سنایا کہ ان کے پاس ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اللہ ڈیوایا صاحب جو ڈیرہ غازی خان علاقہ کے رہنے والے تھے اور لاہور میں بطور ڈاکٹر تعینات تھے انہیں کسی سے پتہ چلا کہ والد صاحب کے پاس ترک عینک سرمہ موجود ہے تو والد صاحب نے انہیں کافی مقدار میں وہ سرمہ فری مہیا کیا وہ لے کر اپنے گاو¿ں چلے گئے جہاں پر وہ مہینے میں دو بار آنکھوں کو چیک کرنے کا کیمپ لگایا کرتے تھے انہوں نے بھی فری سرمہ مریضوں کو تقسیم کیا جس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا بعد میں کئی سالوں تک ان کی زندگی میں یہ سرمہ اس گاوں میں فری جاتا رہا انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی پیسے سے پیار نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر ایک گیت گنگنایا کرتے تھے کہ گائے گی دنیا گیت میرے انہوں نے اپنے بیٹے شیخ عامر صاحب کو اپنی زندگی میں ہی کہہ دیا تھا کہ میری قبر کے اوپر بھی یہ لکھوا دینا کہ گائے گی دنیا گیت میرے۔
میرے والد صاحب کے دوستوں اور پیار کرنے والوں میں بہت ساری وہ اہم شخصیات جن میں جنرل حمید گل، سابق چیف جسٹس نسیم الحسن، سابق وزیراعظم ملک معراج خالد، مولانا عبدالستار نیازی و قومی اخبارات کے تمام ایڈیٹرز حضرات جن میں جناب ڈاکٹر مجید نظامی صاحب سے بہت گہرا پیار اور محبت تھی بالآخر آپ نے اس دنیا فانی کو گیارہ دسمبر 2010 ءمیں 85 سال کی عمر میں خیر باد کہہ دیا آپ کا مزار مبارک انجینئرنگ یونیورسٹی کے بالمقابل بدھو آوا قبرستان میں ہے۔