انیب ظفر اور یورپ میں مثبت پاکستان کا پیغام
ایسے ماحول میں جب پاکستان مخالف عناصر کسی نہ کسی طرح پاکستان کو ایک منفی سوچ کی حامل ریاست ثابت کرنے میں رات دن مصروف ہیں اور ان میں ہمار ے پڑوسی بھارت سمیت بعض پردہ نشیں بھی آتے ہیں تو ایسے میں کھیل کا میدان ہو یا بین الاقوامی کانفرنسیں ان میں جولوگ غیر سرکاری سطح پر شامل ہو کر پاکستان کی، اس کے اصل چہرے کی، اس کی مثبت سوچ کی بات کرتے ہیں وہ بہت غنیمت ہیں ۔گزشتہ دنوںآسٹریا اور جرمنی میں عالمی تنظیم انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس کی طرف سے دنیا کے 14ممالک سے نوجوانوں کی نمائندہ تنظیموں سے نوجوانوں کو اپنے ملک کی نمائندگی کے لئے دعوت دی گئی ۔ اس کانفرنس کا مقصد دنیا کے ترقی پزیر ممالک کے نوجوانوں کے آپس میں تال میل کے لئے مواقع پیدا کرنا اور ان ممالک کے بارے میں باہمی تعارف اور سچ کو جاننے کی کوشش کرناتھا۔ پاکستان مزدور محاذکے جنرل سیکرٹری اور عالمی سطح پر شناخت رکھنے والے دانشورراہنما شوکت چوہدری نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور پاکستان سے لاہور کی نوجوانوں کی متحرک تنظیم آزاد ویلفیر فاﺅنڈشن کے صدر انیب ظفر اس عا لمی کانفرنس میں شریک ہوئے اور ایک درجن سے زائد ممالک کے نوجوانوں کے سامنے پاکستان کا مقدمہ مثبت انداز میں پیش کیا ۔وہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے واحد پاکستانی تھے کانفرنس میں جرمنی ترکی سپین فرانس برازیل مراکش فلسطن تیونس ایران سربیا پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت ا بہت سے اہم ممالک سے 300 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی ۔دورے کے اختتام پر پاکستان مزدور محاز لاہور کے صدر محمد اقبال ظفر نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا اس موقع پر انیب ظفر کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس میں پوری دنیا کی یوتھ موومنٹ پر بات ہوئی اور مجھے پاکستان کے نوجوانوں اور پاکستان کی نئی نسل کے حوالے سے ایسا بہت کچھ بتانے کا کھل کر موقع ملا جس سے ان ممالک کے شرکا پہلے آگاہ نہیں تھے ۔کانفرنس میںمیری تقریر کے دوران نوجوانوں کے مسائل سیاسی اور صنعت و حرفت میں جوانوں کا حصہ ملک کی صنعتی ترقی لیبر مسائل پر سوال جواب کا سیشن ہوا۔ طلبہ یونین پر پابند ی کے حوالے سے سوال پر میرے جواب پر شرکا خاصے حیران بھی ہوئے کیونکہ شرکا کا خیال تھا کہ طلبہ یونین ہی ایسی سرگرمی ہوتی ہے جس سے زندگی کے تمام شعبوں کے لئے قیادت سامنے آتی ہے انیب ظفر کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران تمام وفود سے ون ٹو ون ملاقاتوں کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جس سے دوطرفہ مسائل اور حقائق جانے کا تفصیلی موقع ملا ایک دوسرے کے کلچر سے آگاہی ہوئی ایک دوسے کے سیاسی حالات اور معیشت کو جاننے کا بھی موقع ملا اس سوال پر کہ باہر کی دنیا افغانستان میں امریکی مداخلت اور پاکستان کے کردار کے حوالے سے اب کیا سوچ رکھتی ہے اور نوجوانوں کا تاثر کیا تھا تو انیب ظفر کا کہنا تھا کہ بلا شبہ اس حوالے سے سوال جواب ہوئے اور میں نے بتایا کہ پاکستان نے افغان جنگ کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی ہمیشہ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ بلکہ اس جنگ کی آڑ میں زروایتی حریفوں نے پاکستان کے اندر کاروائیاں کرائیں ۔انیب ظفر کے بقول انکے اس دورے سے کانفرنس میں شریک تمام شرکا کے ذریعے پوری دنیا تک یہ پیغام پہنچ گیا کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں اور افغان وار کے نتیجے میں دہشت گردی کے جس تاثر نے جنم لیا تھا اس تاثر کو پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارں اور عوام نے بھرپور قربانیاں دے کر ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج یہ بات فخر سے کی جا سکتی ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے جس کی عوام اور خاص طور پر یوتھ ہر طرح کے ظلم اور زیادتی اور تشدد سے نفرت کرتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اپنے اس دورے کے دوران انہیں ان ممالک کے عوامی سہولت کے منصوبوں پلوں ریلوے اور سڑکوں کی مجموعی صورتحال کو بھی تقابلی انداز میں دیکھنے کا موقع ملا۔ 200 برس پرانی معلق ٹرین میں بھی سفر کیا جودنیا کے عجوبوں میں شامل ہے ، چنانچہ ان لمحات میں اپنی ٹرینوں پلوں اور سڑکوں کی بہت یاد بھی آئی اور اندر ہی اندر دکھ بھی ہوتا رہا کہ ہمارے ہاں کی قیادت اس طرح کب سوچے اور عمل کریگی جس طرح ان ممالک کے با اختیار لوگ سوچتے اور عمل کرتے ہیں انیب ظفر نے عالمی سطح پر مہنگائی کے پس منظر میں اپنے ہاں کے تاجروں اور حکام کے ردعمل اور ان ممالک کے رد عمل کا تقابل کرتے ہوئے کہاکہ وہاں کی حکومت نے حالیہ مہنگائی کے دوران ریلوے مسافروں کیلئے 9 یورو کی ایک خصوصی ٹکٹ کا اجرا کیا ہے جس سے پورے جرمنی میں کسی بھی ٹرانسپورٹ پر کوئی بھی ایک مہینے کے لئے سفر کر سکتا ہے چنانچہ انہوں نے اور اس کانفرنس کے دوسرے شرکا نے بھی اس سہولت سے بھی خوب فائدہ اٹھایا ۔ انیب ظفر کی باتیں اور انکے اس دورے کی اہمیت اس لئے بھی اہم ہے کہ حکومت کا اس دورے پر کوئی خرچ نہیں ہوا اور پاکستان کے امیج کوبہت بہتر بنانے میں مدد بھی ملی جبکہ پاکستان میں آئے روز سرکاری خرچ پر وفود باہر جاتے ہیں مگر سیر و سیاحت اور سیاسی طور پر اپنے کچھ احباب کو نوازنے سے ہٹ کر کچھ حاصل نہیں ہوتا یہ سلسلہ ہماری تاریخ میں تسلسل سے جاری ہے اب اسے بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بے رحمی سے ملکی خزانہ پر بوجھ ڈالا جاتا ہے جس کا حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوتا۔