• news
  • image

کاش کوئی ایسی سازش بھی ہو؟؟؟؟

آپ نے دیکھا ہے کہ لاہور میں ہر دوسرے چوک پر کتنی بڑی تعداد میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے کیمپ لگے ہوئے ہیں، کئی بڑی بڑی تنظیمیں مصیبت میں گھرے اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے میدان میں ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا ہر جگہ امدادی سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ہر جگہ لوگ ذوق شوق سے اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں، ہر جگہ ایک جذبہ نظر آتا ہے، ہر جگہ لوگ سیلاب متاثرین کے درد کو محسوس کرتے ہوئے میدان عمل میں ہیں۔ بچے، بڑے، مرد، عورتیں، خواتین سب حصہ ڈال رہے ہیں۔ چند روپے کمانے والے سے کروڑوں کمانے والے تک سب کے سب اپنی حیثیت کے مطابق امدادی کاموں میں شریک ہیں۔ یہ ساری مدد ان حالات میں ہو رہی ہے جب ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی پینتالیس فیصد سے زائد ہو چکی ہے، لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے، بجلی کے بلوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ 
یوٹیلٹی سٹورز  کارپوریشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق مختلف برانڈز کی نو سو گرام چائے کی پتی چار سو روپے تک مہنگی کر دی گئی ہے جس کی قیمت بڑھ کر تیرہ سو پانچ روپے ہو گئی ہے جبکہ ٹی وائیٹنر کی قیمتوں میں بھی ایک سو روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جھاڑو کی قیمت میں نو روپے، دو سو گرام چھوارے کی قیمت میں چالیس، دلیہ، نوڈلز، سوئیاں اور نمکو کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بچوں کا آٹھ سو گرام دودھ کا پیکٹ دو سو ساٹھ روپے تک مہنگا ہوا ہے، ایک کلو اچار کا پیک ستاون روپے، سو گرام سرخ مرچ کی قیمت چوراسی روپے، سو گرام گرم مصالحے کی قیمت میں بیالیس روپے، شہد کی تین سو گرام کی بوتل ایک سو روپے، پچپن گرام کھیر کا پیکٹ بھی بیس روپے تک مہنگا کر دیا گیا ہے۔ ان حالات کے باوجود امدادی کیمپوں میں ہر چیز وافر مقدار میں نظر آتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو اس قوم کو متحد رکھتا ہے، یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں ہر مشکل سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی بہت مشکل وقت دیکھا ہے، کبھی زلزلے، کبھی سیلاب، کبھی جنگیں، کبھی دہشت گردی لیکن ہر مشکل میں سرخرو ہوئے ہیں۔ اس مشکل سے بھی ضرور نکلیں گے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام جلد مکمل ہو گا، پاکستان آباد ہو گا، پاکستان خوشحال بھی ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم ابھی اصل خوشحالی سے بہت دور ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، میں، آپ ہم سے اوپر والے، کاش کوئی ایک سازش ایسی بھی ہو جس میں عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کیا جائے، کاش کوئی میرے ملک کی ترقی کے لیے بھی سازش کرے، حکومتیں بنانے، حکومتیں گرانے، ووٹ حاصل کرنے، وفاداریاں بدلنے کے لیے تو بہت سازشیں ہوتی ہیں اور کامیاب بھی ہوتی ہیں کاش کوئی سازش ملکی ترقی اور استحکام کے لیے بھی ہو، عام آدمی کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو روکنے کی سازش ہوتی ہے، معیار تعلیم گرانے کے لیے سازش ہوتی ہے، صحت کی سہولتوں کو کم کرنے کے لیے سازش ہوتی ہے، اداروں کو تباہ کرنے کے لیے سازش ہوتی ہے، مہنگائی کے لیے سازش ہوتی ہے، توانائی کا بحران پیدا کرنے کے لیے سازش ہوتی ہے، معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے لیے سازش ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ان تمام سازشوں میں کامیابی کی شرح زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ باصلاحیت ہیں کاش کہ یہ بہتری کے لیے بھی سازشیں کریں۔ یعنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کریں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ملک میں سیلاب سے تباہی آئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک کا بڑا حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ دس لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو گئے ہیں، سوا تین کروڑ سے شائد لوگ متاثر ہو چکے ہیں، سوا سات لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔ بہت بڑے مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ تباہی ہمارے لیے بہتر کام کرنے کا موقع ہے۔ کاش سازشیں کرنے والوں کا دل بدلے اور وہ پانی میں ڈوبے اپنے ملک کی تعمیر نو کا عزم کریں اور اس ملک کو حقیقی معنوں میں بہترین ملک بنانے کے لیے کام کریں۔
پاکستان تحریکِ انصاف جلسوں میں مصروف ہے یہ وقت ایسی احتجاج سیاست کا تو نہیں ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت امدادی کاموں کی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے ان کے نزدیک سیاسی درجہ حرارت کو برقرار رکھنا یا اس میں مسلسل اضافہ زیادہ اہم ہوتا ہے شاید پی ٹی آئی بھی اسی منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ موجودہ حالات ایسی سیاسی سرگرمیوں کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی یا کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت ایسا کرتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کا تعلق ہے اس میں ایک دوسرے کو نیچے دکھانے یا مقابلہ بازی کے بجائے اخلاص اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اگر مدد کرنے والے  کسی ادارے یا شخصیت کو زیادہ اہمیت دے رہے تو اسے اترانے کے بجائے عاجزی کے ساتھ اس کام کا دائرہ بڑھانے اور مزید توجہ کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔
شوکت ترین نے کال لیک کے معاملے پر لب کشائی کی ہے وہ اس معاملے پر عدالت نہیں جانا چاہتے۔ اپنے دفاع میں کٹ،پیسٹ کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کوئی بھی موقف اختیار کریں ملکی مفاد کے خلاف کوئی بھی بیانیہ یا موقف اہمیت نہیں رکھتا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ ماضی کے واقعات کا حوالہ دینے کے بجائے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ سے ہونے والی بات چیت کی حقیقت بیان کریں۔ کال لیک ہوئی ہے تو اس حوالے اپنی پوزیشن کلیئر کریں۔ آپ ملک کے وزیر خزانہ رہے ہیں۔ اس لیے اپنا دفاع اپنی پوزیشن کے مطابق کریں۔ جس نے جو بویا ہے وہ کاٹے گا، اگر آپ کسی کو چور یا غدار کہیں گے تو وقت آنے پر لوگ جواب میں آپ کو پھولوں کے ہار ہرگز نہیں پہنائے گا۔ اقتدار کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس لیے اقتدار میں رہتے ہوئے جو پیمانے مقرر کیے جاتے ہیں ان پر قائم رہنے کے لیے بڑی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن