• news

سیہون بچانے کیلئے منچھر جھیل پر کٹ ، کئی عکاقے ڈوب گئے ، مزید 26جاں بحق 


اسلام آباد‘ کراچی‘ پشاور‘ نارووال (وقائع نگار‘ نوائے وقت رپورٹ‘ آئی این پی‘ بیورو رپورٹ‘ نامہ نگار) سیلابی ریلے سب کچھ بہا کر لے گئے۔ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبر پی کے اور جنوبی پاجاب میں ہر طرف تباہی کے مناظر نظر آنے لگے۔ ملک بھر میں 1290 اموات‘ 5 لاکھ 44 ہزار 376 گھر تباہ ہو گئے۔ 7 لاکھ 36 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ کھلے آسمان تلے پڑے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ سیلاب سے صوبہ سندھ پورا اجڑ گیا۔ جاں بحق افراد کی تعداد 492 تک جا پہنچی۔ 4 لاکھ 69 ہزار مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ 56 لاکھ 53 ہزار 981  افراد بے گھر ہوئے۔ 32 لاکھ 77 ہزار ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں۔ مواصلاتی نظام ناکارہ‘ ٹرین سروس بھی معطل ہے۔ اشیاء کی ترسیل میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ادھر بلوچستان میں بھی بپھری موجیں 260 جانیں لے گئیں۔ 76 بچے بھی شامل ہیں۔ صوبے میں 18 ہزار 118 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ 2 لاکھ 15 ہزار مویشی مارے گئے۔ 2 لاکھ سے زائد ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔  این ڈی ایم اے کے مطابق 24 گھنٹے میں مزید 26 افرا زندگی کی بازی ہار گئے۔  دوسری طرف پاکستان کی سب سے بڑی منچھر جھیل میں سیلابی پانی کا دبائوکم کرنے کیلئے آر ڈی 14 کے مقام پر کٹ لگا دیا گیا جبکہ ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کیلئے سول انتظامیہ کی مدد کیلئے منچھر جھیل پر فوج اور رینجرز کے جوانوں کو تعینات کر دیا گیا۔ بند پر پانی کا دبائو کم نہ ہونے کی صورت میں 2 مزید کٹ لگانے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ محکمہ آبپاشی سندھ کے مطابق منچھر جھیل کو کٹ لگانے کے بعد پانی گائوں کرن پور اور انڈس لنک کے درمیان سے ہوتا ہوا دریائے سندھ میں داخل ہو گا۔ کٹ کے بعد منچھر جھیل سے پانی کا دبائو 30 فیصد کم ہوگا۔ منچھر جھیل میں پانی کی سطح بلند ہونے سے بند ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور بند ٹوٹنے کی صورت میں سیہون کی 5 یونین کونسلیں ڈوبنے کا خدشہ تھا۔ سیلابی صورتحال کے پیش نظر مکینوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے جبکہ میہڑ اور جوہی شہر کے رنگ بندوں پر بھی پانی کا دبائو بڑھنے کے بعد شہری بوریوں میں مٹی بھر بھر کر بندوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب پاک فوج کے انجینئر بند کے ٹوٹے حصوں کی مرمت کیلئے فوری طور پر جھیل پر پہنچ گئے۔ منچھر جھیل کے کناروں کو مضبوط بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں تاکہ کسی بھی آفت سے بچا جا سکے۔ منچھر جھیل میں کٹ کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کی سیہون شریف پہنچے‘ صورتحال کا فضائی جائزہ لیا۔ جبکہ مراد علی شاہ کی زیرصدارت اہم اجلاس میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بریفنگ بھی دی گئی۔ صوبائی وزیر شرجیل میمن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ منچھر جھیل میں کٹ سیہون کو بچانے کیلئے لگایا گیا‘ ایک لاکھ 25 ہزار افراد متاثر ہونگے‘ لوگوں کا انخلاء جاری ہے‘ صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض بڑھ رہے ہیں‘ زیادہ متاثرہ مقامات کے باسیوں کو پہلے ریلیف دیا جائے گا۔ نارووال سے نامہ نگار کے مطابق نالہ ڈیک میں ایک مرتبہ پھر اچانک سیلابی ریلا آگیا۔ ضلعی انتظامیہ نے قریبی دیہات میں فلڈ وارننگ جاری کر دی۔ اس وقت نالہ ڈیک میں قلعہ احمد آباد کے مقام پر 17467کیوسک کا ریلہ گذر رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے نالہ ڈیک کے قریب کنگرا پل، دیولی، منگوال، قلعہ احمد آباد میں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے مکمل سامان کے ساتھ ریسکیو ٹیمیں بھیج دی ہیں۔ حیدرآباد میں  پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سندھ حکومت نے سیہون اور بھان سعید آباد کو بچانے کیلئے کٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوگوں کو نکالنے کیلئے پوری سرکاری مشینری لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کٹ لگانے سے 5 یونین کونسلز متاثر ہونگی۔ وزیراعلیٰ سندھ کا علاقہ وابڑ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ کٹ سے بوبک‘ اراضی‘ جعفرآباد اور یوسی چنہ شدید متاثر ہونگی۔ پانی آبادیوں میں داخل ہو گیا۔ جبکہ قمبر اور شہداد کوٹ میں بھی سیلاب کی صورتحال سنگین ہو گئی ہے۔ کندھ کوٹ میں درائی مہر کچے کا علاقہ مکمل ڈوب گیا۔ لاڑکانہ کی تحصیل میروخان میں کھوسا سیم نالے  کو 70 فٹ کا شگاف پڑ گیا۔ پانی میرو خان شہر کی طرف بڑھنے لگا۔ کسی بھی ممکنہ تباہی سے نمٹنے اور اپنے گھروں کو بچانے کیلئے علاقہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت  شگاف کو بند کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن (این ایف آر سی سی) نے قدرتی آفت سے متاثرہ اضلاع کی تفصیلات جاری کر دیں۔  نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن نے بتایا کہ ملک بھر میں 80 اضلاع بارشوں اور سیلاب کی شکل میں قدرتی آفت سے متاثر ہوئے جس میں بلوچستان کے 31‘ سندھ کے 23‘ خیبر پی کے کے 17‘ گلگت بلتستان 6 اور پنجاب کے 3 اضلاع شامل ہیں۔ این ایف آر سی سی کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں 3 کروڑ 30 لاکھ 46 ہزار افراد سیلاب اور شدید بارشوں کے باعث متاثر ہوئے جن میں آزادکشمیر کے 53 ہزار 700‘ بلوچستان کے 91 لاکھ 82 ہزار 616‘ خیبر پی کے کے 43 لاکھ‘ گلگت بلتستان کے 51 ہزار‘ پنجاب کے 48 لاکھ 44 ہزار اور سندھ کے 1 کروڑ 45 لاکھ شہری متاثر ہوئے۔ وفاقی وزیرصحت عبدالقادر پٹیل کی ہدایت پر سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 1200 ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ترجمان وزارت صحت کے مطابق ہیلتھ کیمپس، نیشنل ایمرجنسی آپریشن سیل، صوبائی ای اوسیز اور آغا خان یونیورسٹی کے اشتراک سے لگائے جائیں گے۔ اس حوالے سے وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے بتایا کہ بلوچستان کے 6 اضلاع میں 300، خیبر پی کے کے 8 اضلاع میں 400 ہیلتھ کیمپ لگائے جائیں گے۔ وزیر صحت کے مطابق پنجاب کے دو اضلاع میں 100، اندرون سندھ کے 6 اضلاع میں 300 ہیلتھ کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ کراچی میں بھی 95 ہیلتھ کیمپ لگائے جائیں گے۔ نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈی نیشن (این ایف آر سی سی) کے مطابق قومی شاہراہ مدین این 95 بحرین اور لائیکوٹ کے درمیان بلاک ہے، سندھ میں قومی شاہراہ این 55 میہر جوہی نہر سے خیرپور ناتھن شاہ تک ڈوبی ہونے کے باعث بند ہے۔ سیلاب اور بارشوں کے باعث ملک کے مختلف حصوں میں ریلوے نیٹ ورک بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، بلوچستان میں کوئٹہ تافتان اور کوئٹہ سبی اور سبی سے حبیب کوٹ تک ریلوے ٹریک تاحال بند ہے، اسی طرح پنجاب اور سندھ کے درمیان حیدرآباد سے روہڑی اور ملتان تک ریلوے ٹریفک متاثر ہے۔ نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات کے سروے کے لئے 29 ٹیمز مصروف عمل ہیں۔ پشاور سے بیورو رپورٹ کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے نتیجہ میں خیبر پختونخوا میں اب تک 289 افراد جاں بحق جبکہ 348 دیگر زخمی ہوئے ہیں، جبکہ ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژنز میں 7 ستمبر تک مزید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی پیشگوئی کے پیش نظر مقامی لوگوں اور سیاحوں کو الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر محنت اور سیلاب کی صورت حال کے لئے صوبائی حکومت کے ترجمان شوکت یوسف زئی نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی سرگرمیوں کی تفصیلات دیتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر 13 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے‘ وزیراعلیٰ محمود خان تقریباً تمام آفت زدہ علاقوں میں گئے  اور لوگوں سے ملے۔  ان کو تسلی دی اور امدادی کاموں کی نگرانی کی۔ نقصانات کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا ہے وہ 102.3 بلین روپے ہے جو بہت بڑی رقم ہے اور صوبے کے لیے کافی مشکلات ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن