• news
  • image

قصور کے نواحی قصبہ میں گنج شہدا

حاجی  محمد  شریف  مہر  
کھیم کرن کے محاذ پر جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے شہدا بھی یہاں آسودۂ خواب ہیں

بریگیڈیئر احسن رشید شامی نے دشمن کے علاقے میں جا کر جام شہادت نوش کیا

انتظامیہ کی بے حسی سے قبرستان شہدا میں پتھر لگانے اور سائے کا انتظام مکمل نہ ہو سکا

بریگیڈیئر شامی جس کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا ان کے’’شامی مینار‘‘ کی حالت بھی خستہ حالی کا شکار ہے
…………
حاجی  محمد  شریف  مہر 
محاذ جنگ گرم تھا کہ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی آواز ریڈیوں پر گونجی ’’میری عزیز ہموطنو ، السلام و علیکم، پاکستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے دل کی دھڑکنوں میں کلمہ طیبہ کے صدائیں گونج رہی ہیں بھارتی حکمرانوں کو ابھی تک یہ محسوس نہیں ہوا کہ انہوں نے کس قوم کی غیرت کو للکارا  ہے، جس کے بعد پوری پاکستانی قوم پاک فوج کی معاون و مددگار ثابت ہوئی اور جنگ ستمبر 1965 فوج کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم نے بھی لڑی۔
کھیم کرن کے محاذ پر جرات و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے وہ شہدا جن کی یادگاریں اور آخری آرام گاہیں مصطفی آباد میں قائم ہیں ان میں بریگیڈئیر احسن رشید شامی کا نام نمایاں ہے، بریگیڈئیر احسن رشید شامی شہید ہلال جرات کی یاد گار شامی مینار بھی مصطفی آباد میں بنایا گیا ہے ، جنہوں نے جہاد کشمیرمیں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا، پانڈوکی پہاڑی کو بھی سر کیا، جس کے اعتراف و ستائش میں آپ کو تمغہ دفاع سے نوازا گیا تھا۔
1955ء سے 1958ء تک قاہرہ کے پاکستانی سفارتحانے میں فوجی اتاشی رہے، 25 دسمبر 1960 کو بریگیڈئیر کے عہدے پر فائز ہوئے، 6 ستمبر 1965 کو جب بھارت نے پاکستان پر عیارانہ حملہ کیا تو آپ کو کھیم کرن سیکٹر میں دفاع وطن کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی، آپ نے اپنی مخصوص سرفروشانہ ہمت، مثالی جرات اور بلند کردار عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے ٹڈی دل فوج کو اپنے قلیل سرفروش ساتھیوں کی مجاہدانہ سرگرمیوں کی مدد سے شکست فاش دی اور کھیم کرن کے محاذ پرقبضہ کر لیا۔
10ستمبر کی صبح فرض کی ادائیگی اور شوق شہادت میں سرشار دشمن کے علاقے میں اسکی فوجوں کے قلب میں پہنچ گئے اور دشمن کی گولی لگنے سے شہادت پائی، شکست کھا کر بھاگتا ہوا دشمن آپ کا جسد خاکی بھی اٹھا کر ساتھ لے گیا، جسے انڈیا میں اس کی بہادری و جرات مندی کی وجہ سے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، جنگ بندی کے بعد 23فروری 1966کواس قابل فخر اور نا قابل تسخیر شہید کا جسم مبارک کو بھارت سے لاہور لایا گیا اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قبرستان شہیدان میں دفن کیا گیا،ان کی یاد گار شامی مینار مصطفی آباد میں بنائی گئی، ان شہدا میں دوسرا بڑا نام لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہیدہے جن نے 10ستمبر کو کھیم کرن کے محاذ پر مادر وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
دوران جنگ شہادت کا رتبہ پانے والے وہ شہدا جن کی آخری آرام گاہیں مصطفی آباد میں بنائی گئی تھی۔ ان میںمیجرسلطان اسد جان،صوبیدار میجر شیر اسلم،صوبیدار محمد حسین، نائب صوبیدار معین شاہ،نائب صوبیدارسرور خان، نائیک علی اصغر،نائیک گل مرجان،نائیک لباس خان،نائیک محبوب خان،نائیک محمد محبوب،نائیک نواب خان،نائیک محمد رازاق، لانس نائیک محمد خان، لانس نائیک گل آزاد، لانس نائیک عبدالقیوم، لانس نائیک میراں بخش، نائب رسالدار محمد افضل خان، نائب رسالدار احمد خان، نائب رسالدار محمد یوسف، نائب رسالدار حوالدار مہر خان،نائب رسالدارحوالدار میجر محمد سرور، وی ایم تاج الحق،کرافٹ مین محمد حنیف،حوالدار ناظم علی،حوالدار محمد اقبال، سپاہیوں میں بوستان، میاں نعیم انور ، محمد اکرم، سوار داد خان، علی بخش،نور محمد، دوست محمد، گلزار حسین، عدالت خان،محمد بنارس خان، قمر دین ڈرائیور، محمد شریف،محمد عالم،رحیم شاہ، دولت محمد، منظور الہی،انجر گل، محمد اسلم،دلاور حسین،عبدالرحمان، محمد افضل کواٹر ماسٹر، مبارک شاہ، مہری خان، مہندی خان، اجمل خان،محمد ریاض، رضا دین، محمد مسکین، گل خستہ، محمد آزاد، رضا حسین،محمد ریاض شامل تھے، جنہوں نے دفاع کے فرائض ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
٭ میجرزسلطان اسد جان،کمپنی کمانڈ کرتے ہوئے دشمن کے حملے کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے، صوبیدار میجر شیر اسلم 12 ستمبر کو ایمونیشن کی سپلائی کے دوران دشمن کے ٹینک کا گولہ لگنے سے شہید ہوئے،سپاہی گل مرجان نے میجر خادم شہید (ستارہ جرات( کے ہمراہ دشمن کے ٹینکوں کو تباہ کرتے ہوئے شہادت پائی،سپاہی دوست محمد 12 ستمبر کو دن 11 بجے شہید ہوئے ان کی شہادت کے بعد بھی ان کی گن سے متواتر فائرنگ جاری رہی۔
٭مجاہدفورس للیانی کے جوانوں نے بھی فوج کے شابشانہ ساتھ دیا، انہیں اسلحہ کی سپلائی، کھانا او ر مرہم پٹی جیسے فرائض ادا کئے،
 ٭محاذ جنگ سے واپس آنے والے سپاہیوں کو اپنے آپ پر فخر تھا کہ ملک و ملت نے انکا جو مقصد مقرر کیا تھا وہ اس میں آج سرخرو ہوئے ہیں، انہوں نے اپنا خون دیکر وطن عزیز کے ناموس اور آزادی کو بچالیا۔
٭ہمارے کل پر اپنا آج قربان کرنے والوں کی یاد گاریں اور آخری آرام گاہیں سیاسی قائدین و انتظامیہ کی بے حسی کا منہ چڑا رہی ہیں،خستہ حال قبرستان گنج شہدا کو مصطفی آباد کے چند نوجوانوں اور بزرگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت از سر نو تعمیر کا کام شروع کیا گیا جو نا معلوم وجوحات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکا، اپنی مدد آپ کے تحت شہدا کی آرام گاہوں کو اونچا کرکے چار دیواری مکمل کر دی گئی، جبکہ ان پر سائے اور قبرستان میں پتھر لگانے کا منصوبہ پایا تکمیل تک نہ پہنچ سکا، بریگیڈئیر احسن رشید شامی جس کی بہادری و جرات کا اعتراف کرنے پر دشمن بھی مجبور ہو گیا تھا کی یاد گار شامی مینار بھی انتہائی خستہ ہو چکی ہیں۔
اخبارات میں خبروں کی اشاعت اور چھ ستمبر کی تقریب میں یادگار شہدا کی خستہ حالی کا رونا رونے پرآنے والی انتظامیہ اور معززین علاقہ کی طرف سے ہر سال وعدے اور دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں کچھ نظر نہیں آتا،
یاد گار شہدا پر ہر سال ضلعی انتظامیہ پھولوں کی چادر چڑھاکر فوٹو سیشن کروانے کے بعد بھول جاتی ہے، جبکہ لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہید کے نام پر بننے والی ندیم شہید پارک کئی سال ویرانے کا منظر پیش کرتی رہی بعد ازاں اسے ختم کرکے مارکیٹ بنا دی گئی، شہد، کھیم کرن کے محاذ پر اپنی جرات و بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے انہوں نے ہمارے کل کیلئے اپنا آج قربان کر دیا تھا جن کے جسد خاکی کو امانتاً مصطفی آباد میں دفن کیا گیا تھا جب شہدا کے ورثا ان کے جسد خاکی اپنے اپنے علاقوں کو لیجانے کیلئے آئے تو معززین علاقہ نے اصرار کیا کہ ہم ان شہدا کی آخری آرام گاہوں کی حفاظت کریں گے، ان شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہر سال 6 ستمبر کو فوج کے دستے ا ن شہدا کو سلامی پیش کرتے، بچوں کے تقریری مقابلہ جات اور کبڈی میچ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن