عمران خان پر اداروں اور شخصیات میں تقسیم کی کوشش کا الزام
ندیم بسرا
قومی حکومت اور قومی اتحاد کی باتیں سبھی سیاستدان کررہے ہیں ،سیاسی ،جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لئے کیا قومی حکومت کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے یا ملک میں نئے انتخابات کراوکے ایک نیا مینڈیٹ اور ذمہ داری نئی حکومت پر ڈالی جائے جو اس وقت ملک کے مشکل ترین حلات میں صحیح فیصلے کرکے قوم کو مایوسی سے نکالیں؟ ۔ اب ان ہی حالات اور واقعات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ضمنی انتخابات کیلئے پنجاب کے سبھی شہروں میں جلسے بھی کررہے ہیں ،جس میں وہ اپنا بیانیہ بھی پیش کررہے ہیں جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ عمران خان ہی پاکستان بچانے کی واحد اور آخری امید ہیں اور وہ پاکستان کو ان بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،اب چونکہ عمران خان خود سبھی حلقوں سے واحد امیدوار ہیں تو وہ اپنا بیانیہ کھل کر عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔ان کے ناقدین ان کے جلسوںمیں کئی حوالوں سے تنقید کررہے ہیں ۔پہلی بات تو یہ کررہے ہیں کہ عمران خان کو افواج پاکستان کی باتیں جلسوں میں نہیں کرنی چاہیئے وہ کیوں شخصیات کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں ،مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف ایک پریس کانفرنس میں یہ بات کرچکے ہیں۔ اسی قسم کی باتیں خواجہ سعد رفیق اور حالیہ ایک انٹرویو میں خواجہ آصف بھی یہ بات کرچکے ہیں کہ اداروں اوران کی شخصیات میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،اگر دیکھا جائے تو وہ کہ بالکل درست کہ رہے ہیںکہ اداروں اور ان کی شخصیات کا نام جلسوں جلوسوں میںنہیں لینا چاہئے ،سیاسی خامیاں ڈھونڈ کر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو گائیڈ لائن دینی چاہئے یہی کام ہونا چاہیے، ملک کے سبھی زیرک سیاست دانوں اور ان کی جماعتوں کا،اگر عمران خان یہ کام جلسوں میں کررہے ہیں تو پہلے ان سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ اس بات کو کس نے شروع کیا ۔کیا پی ڈی ایم کے جلسوں میں ان کے قائدین اداروں اور ان کی شخصیات کا نام نہیں لیتے تھے ،یہ کوئی پچاس برس پہلے کی تاریخ نہیں ڈیڑھ برس پہلے کی باتیں ہیں جو ریکارڈ پر ہیں اس لئے اس پر بات کرنے کی بجائے مسلم لیگ ن کے رہنما خود اصلاح کرلیں ،باقی اگر دیکھا جائے تو اس قسم کی باتوں کے لئے سینٹ اور قومی اسمبلی کا پلیٹ فارم ہمارے سیاستدانوں کے پاس ہے وہاں تمام باتیں کی جاسکتی ہیں اور ضرور ت پڑنے پرقانون سازی بھی کی جاسکتی ہے،مگر وہاں جو ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔دوسری بڑی تنقید جو عمران خان پر جارہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جلسے ترک کریں اور سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے جائیں تو اس کے لئے وہ ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کرچکے ہیں جس میں پانچ ارب روپے اکھٹے کرنے کا دعوی کیا گیا تھا ۔ ملک میں جاری سیلاب کی تباہ کاریوں اور متاثرین کی حوصلہ افزائی کے لئے بلا شبہ عمران خان کو جلسے ترک کرنے چاہئے اوران علاقوں میں جانا چاہیے ،باقی ملک میں قومی اتحاد کی ضرورت تو ہر وقت رہتی ہے ۔ جس کے لئے سب جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹارہنا چاہئے ،اگر بات قومی حکومت کی جائے تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس قومی حکومت کے حق میں کبھی ووٹ نہیں کریں گی کیونکہ اس وقت نئے الیکشن ہی وقت کی اہم ضرورت ہیں جس کے لئے سب سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا اور فیصلہ لینا ہوگا۔