نواز شریف کیلئے زرداری کے بجائے عمران خان زیادہ قابل قبول
میاں غفار احمد
بظاہر تو فواد چودھری نے عمران خان اور میاں نواز شریف کے آپس میں کسی بھی نوعیت کے رابطے کی دو ٹوک الفاظ میں تردید کر دی ہے ، مگر سچ بات یہی ہے کہ دونوں کی سوچ میں حکومتی ستونوں کے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہنے اور سیاسی معاملات میں انتظامی مداخلت کو بہت حد تک محدود کرنے پر کافی مماثلت پائی ہے اور اس کے باوجود کہ پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی کا بہت بڑا کردار ہے۔ جناب نواز شریف کے لئے عمران خان آصف زرداری سے زیادہ قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی بہت حد تک درست ہے کہ میاں نواز شریف اتحادی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور لندن میں رہتے ہوئے بھی ان کا پاکستان میں موجود نیٹ ورک بہت سے امور پر انہیں اپ ڈیٹ رکھتا ہے۔ میاں نواز شریف اب بہت محتاط ہیں اور فوری ردعمل نہیں دیتے تاہم لندن میں ان کی کور ٹیم کے حوالے سے بھی ان باتوں کی تصدیق ہوئی ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے بہت حد تک غیر مطمئن ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 157 ملتان سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی مخدوم شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔ ابھی تک اس مقابلے میں شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو حلقے میں نواوارد ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف سید یوسف رضا گیلانی بہت منظم طریقے سے تمام دھڑوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ حلقہ پی پی 217 سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ پی پی 217 خالصتاً شہری حلقہ تھا جبکہ این اے 157 میں دیہات بھی شامل ہیں جہاں پی ٹی آئی کے ووٹروں کی نسبت برادری اور دھڑے کا ووٹ زیادہ ہے۔
منصوبہ بندی سے الیکشن لڑنا گیلانی خاندان پر ختم ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے چاروں بیٹے دن میں 200 سے زائد انفرادی اور گروپوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور صبح سے لے کر رات گئے تک مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر سے گیلانی خاندان 52 سال بعد 1970ء کی طرح الیکشن لڑ رہا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو ملتان سے الیکشن لڑ رہے تھے اور پیپلز پارٹی نے بہت سے نامی گرامی سیاستدانوں کا صفایا کر دیا تھا مگر دھڑوں اور برادریوں کو ساتھ ملا کر گیلانی خاندان بھٹو کے پینل سے بھی اپنی سیٹ نکالنے اور سید فیض مصطفی گیلانی کو ایم پی اے بنوانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
یہ حلقہ 1985ء سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی ایک مضبوط پاکٹ ہے ان کے اس حلقے میں رابطے بہت مضبوط اور دہائیوں پر مشتمل ہیں جبکہ گیلانی خاندان نے تمام دھڑے ساتھ ملانے کے لئے دن رات ایک کر رکھا ہے۔ رانا اقبال سراج، عبدالغفار ڈوگر، چودھری عبدالوحید ارائیں، رانا محمود الحسن سمیت ان کی ساری برادری بھی سید یوسف رضا گیلانی کا ساتھ دے رہی ہے۔ گیلانی ہاوس میں ہر رات فہرستیں بنتی ہیں جن کے مطابق علی حیدر گیلانی، عبدالقادر گیلانی، علی موسیٰ گیلانی اور علی قاسم گیلانی اپنے اپنے ٹارگٹ پر نکل کھڑے ہوتے ہیں جبکہ سید یوسف رضا گیلانی دن کے پہلے پہروں میں رابطوں کا کام مکمل کر کے خود بھی انتخابی مہم پر چل پڑتے ہیں۔ اگر کسی قسم کی مداخلت نہ ہوئی اور انتخابی عمل سے بااثر حلقے غیر متعلقہ رہے تو این اے 157 کے دیہاتی حلقے سے موسیٰ گیلانی دس سے 15 ہزار کی لیڈ لے کر شہر میں داخل ہوں گے جبکہ پی پی 217 میں شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی شہری آبادی سے لیڈ لیتی ہوئی دیہاتی حلقے میں داخل ہوں گی۔ مقابلہ کانٹے دار ہے اور اگر موسیٰ گیلانی کامیاب ہوتے ہیں تو ایک ہی فیملی سے باپ اور بیٹے ایوان بالا، سینیٹ۔ ایوان زریں قومی اسمبلی، اور پنجاب اسمبلی میں نمائندگی کر کے ایک منفرد ریکارڈ بنا سکیں گے۔
8 ستمبر کو ملتان میں عمران خان جلسہ سے خطاب کرنے آرہے ہیں۔ فیصل آباد کے جلسے میں عمران خان نے پھر قومی اداروں پر الفاظ کے نشتر برسا دئیے۔ سیاست کے میدان میں خاک اڑانا اور نت نئی باتیں کرنا عمران خان پر بھی ختم ہے۔ جناب عمران خان کو شیخ سعدی کی حکایات پڑھنی چاہئیں اور اپنے غلام گردش کے مشیروں پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ صاحب بدل جاتے ہیں، مصاحبین وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔آج جو ان کے ساتھ ’’مخلص‘‘ ہیں کبھی ان کا یہی اخلاص کسی اور کے لئے ہوا کرتا تھا اور عین ممکن ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اس سے بھی بڑھ کر کسی کے مخلص ہوں۔
سیلاب زدگان کی امداد اور آباد کاری میں نظم و ضبط کی بہت کمی ہے اس وقت لاکھوں لوگوں کو چھت کی ضرورت ہے کہ موسم تیزی سے بدل رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ چین سمیت دیگر ممالک سے بنے بنائے گھروں کا میٹریل منگوایا جائے، جیسے بالا کوٹ میں زلزلہ متاثرین کے لئے دنیا کے مختلف ممالک سے باتھ رومز کی فٹنگ سمیت یہ امدادی سامان ملا تھا۔ جس قدر بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں ان کے لئے چھت کا انتظام اس کے علاوہ اور کسی طریقے سے نہیں ہو سکتا۔