عمران پر 22 ستمبر کو فرد جرم
اسلام آباد (وقار عباسی/ وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا تحریری جواب ایک مرتبہ پھر مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کے بعد متفقہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش ہے۔ عدالتی حکم میں بتایا گیا ہے کہ دو ہفتوں بعد عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ اس کی ریڈ لائن ہے، جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ عمران خان کی عدالت آمد کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ تین گھنٹے جاری رہنے والی سماعت مکمل ہونے تک عمران عدالت میں موجود رہے۔ وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ عدالت میں گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا تھا، جواب گزشتہ سماعت پر عدالت کی آبزرویشنز کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے، ہم نے جواب کے ساتھ سپریم کورٹ کے دو فیصلے لگائے ہیں، ہم چاہتے ہیں اب توہین عدالت کیس بند کردیا جائے۔ حامد خان نے دانیال عزیز کیس کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، گزشتہ سماعت کے حکم نامے میں عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات کا حوالہ دیا۔ عمران خان کا کیس دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات سے مختلف ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل، سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی، انہوں نے عدالت کے کردار پر بات کی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ عمران خان نے کریمنل توہین کی ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، ہم نے آپ کا جواب پڑھ لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے تین فیصلے ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے، ہم نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی، عدالت پر تنقید کریں، ہم سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کریں گے، کریمنل توہین عدالت بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے۔ کریمنل توہین عدالت میں دانست غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے، اسے نہیں دیکھا جاتا، کریمنل توہین عدالت میں یہ نہیں کہا جاتا کہ بات کرنے کا مقصد کیا تھا، ہم نے آپ کو سمجھایا تھا کہ یہ کریمنل توہین عدالت ہے۔ 'اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ماتحت عدلیہ ہماری ریڈ لائن ہے'۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا جواب حتمی تھا اور ہم نے تفصیلی پڑھا، آپ کو ہدایت کی تھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا جواب داخل کریں۔ عدالت کے کہنے پر حامد خان نے توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ معافی تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چیف جسٹس نے حامد خان کو توہین عدالت کی سیکشن 9 پڑھنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اس کا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے۔' اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی'۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سوسائٹی اتنی پولرائز ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں، اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟۔ کیا یہ لب و لہجہ کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلاء تحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپکا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟۔ آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے، حامد خان نے کہا کہ ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟، ہم نے پچھلی بار سمجھایا تھا لیکن آپ کو احساس نہیں ہوا، کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ انہیں قانون کا علم نہیں تھا؟۔ عدالت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ آپ کے 'جواب میں شہباز گل پر تشدد کومبینہ' نہیں لکھا'۔ اس دوران جسٹس بابر ستار نے حامد خان کو شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس بابر ستار نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے کہا کریمنل توہین کا ذکر نہیں، شوکاز میں صاف لکھا ہے عمران خان نے کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو 'مبینہ' نہیں لکھا، معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے جوابات میں توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں۔ جس پر حامد خان نے کہا کہ جسٹیفائی اور وضاحت دینے میں فرق ہوتا ہے، میں وضاحت دے رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہی الفاظ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججز کے لیے استعمال ہوتے تو یہی جواب دیتے، آپ جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے، یہ بتائیں فیصلے جلسوں میں ہونگے اور یا عدالتوں میں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ستر سالوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ تب الزام کیا ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے زیادہ اہم ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ کئی بار بات اتنی سنجیدہ نہیں ہوتی جتنی سمجھ لی جاتی ہے، عمران خان نے شاید ایکشن کے لفظ کو درست طور پر نہیں کہا۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا توہین عدالت ایکٹ کے تحت لیگل ایکشن کو اس طرح پبلک میں کہا جا سکتا ہے؟۔ جس پر حامد خان نے کہا کہ لیگل کارروائی تو ہر ایک کا حق ہوتا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ قانون فورمز بتاتا ہے کہ جہاں ایکشن لیا جا سکتا ہے، نہ کہ جلسوں میں۔ حامد خان نے کہا کہ ایکشن کا کہنا لازمی طور پر کسی کو دھمکانے کی کوشش نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کسی جج کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔ آپ اپنا جواب جتنا پڑھتے جائیں گے اتنا مسئلہ ہو گا'۔ حامد خان نے کہا کہ ہم عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم وہ ویڈیو دوبارہ چلا دیتے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پبلک میں جو الزام لگایا گیا یا جو الفاظ کہے گئے کیا ان کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟۔ عمران خان نے شعیب شاہین کو لقمہ دیا کہ میں نے جلسے میں کہا تھا، شعیب شاہین عمران خان کا پیغام لیکر حامد خان کے پاس گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لیڈر کی گفتگو میں ذمہ داری ہوتی ہے، فتح مکہ سے سیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟۔ وہ واقعہ اس وجہ سے ہوا کیوں کہ اس کیلئے اشتعال دلایا گیا تھا، بات کو سمجھیں، آپ کو یہی بات بار بار سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لیڈر کی گفتگو میں بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ایک ایک لفظ اہم ہوتا ہے۔ ایک ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جو ٹون استعمال ہوئی وہ درست نہیں تھی۔ جسٹس بابر ستار کے ریمارکس پر عمران خان نفی میں سر ہلاتے رہے، عمران خان نے ایک دفعہ پھر شعیب شاہین کو روسٹرم پر جانے کا کہا، عمران خان کے کہنے پر شعیب شاہین دوبارہ روسٹرم پر چلے گئے، شعیب شاہین نے شہباز گل کیس پر بولنے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ شہباز گل کیس کی بات نہ کریں۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ شہباز گل کی کسی میڈیکل رپورٹ میں ان پر تشدد ثابت نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے جواب میں تشدد کو مبینہ ہی لکھ دیتے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ شہباز گل کیلئے 6 میڈیکل بورڈز بنائے گئے، 14 ڈاکٹرز نے انہیں چیک کیا، کسی نے نہیں کہا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا، کیا آپ نے یہ بات عمران خان کو نہیں بتائی؟۔ شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے میڈیکل افسر نے کنفرم کیا تھا کہ جسم پر نشانات تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، آپ کی پوری لیگل ٹیم سماعت کے موقع پر موجود تھی، اب آپ کا تاثر غالب آئے گا یا جوڈیشل آرڈر؟۔ حامد خان نے کہا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، عدالت کہتی ہے کہ ججز کے جذبات نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی انسان ہیں، عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کیونکہ دھمکی دینا ان کا مقصد نہیں تھا، عمران خان خواتین کے حقوق کیلئے ہمیشہ کھڑے ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک خاتون کی بات نہیں، ماتحت عدالت کی ایک جج کی بات ہے۔ حامد خان نے کہا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک خاتون جج سے متعلق یہ بات کی گئی جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کون یہ تاثر دیتا ہے؟۔ میں آپکی بات کو سمجھ نہیں سکا بلکہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آج تک کسی لیڈر نے اپنے فالوور کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے روکا ہے؟۔ اس سوشل میڈیا کا اصل شکار عدالتیں ہوتی ہیں لیکن ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ اپنے دلائل کے دوران حامد خان نے فردوس عاشق اعوان کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس پر نہ جائیے گا یہ فیصلہ آپ کے خلاف جائے گا، فردوس عاشق اعوان کیس کا فیصلہ تب دیا گیا جب وہ وزیراعظم کی معاون خصوصی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا تھا کہ فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کی لیکن انہیں علم نہیں تھا، اب اس فیصلے کے بعد آپ یہ دلیل تو نہیں دے سکتے کہ آپ کو پتا نہیں تھا۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ جواب میں یہ بھی لکھا گیا کہ عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر کی جائے گی، کیا عمران خان اپنے بیان سے اس عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر ہو گی تو کیا ایسا کہنا درست تھا، کیا ایسا کہنا اسلام آباد ہائیکورٹ پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں تھی؟۔ یا تو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں عدالت یا ججز کو سکینڈلائز کرنے سے فرق نہیں پڑتا، نہال ہاشمی کیس کی سنگینی کم تھی لیکن سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں سزا دی، ہم توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو روزانہ وہی کرتے رہیں، ہم نہیں کرینگے، یہاں کریمنل توہین عدالت ہے جس پر دنیا بھر میں نوٹس لیا جاتا ہے ہم بھی لیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس توہین عدالت سے عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس بابر ستار نے فواد چوہدری کے خلاف ایک درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کی، وہ نہال ہاشمی کیس سے زیادہ سنگین توہین عدالت ہے لیکن ہم نوٹس نہیں لیں گے، آپکو معلوم ہے وہ کیا کہتے ہیں؟۔ کیا کیا چیزیں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ جی مجھے اس حوالے سے معلوم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہائیکورٹ کے باہر لوگ لے آئیں گے، وہ دھمکی دے رہے ہیں، آپ کو بار بار سمجھایا تھا کہ سوچ سمجھ کر جواب جمع کرائیں۔ حامد خان نے کہا کہ ہم نے اپنے جواب میں بار بار افسوس کا اظہار کیا ہے، ہم نے عدالتی ہدایت پر افسوس کا لفظ استعمال کیا ہے، ہماری گزارش ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ عمران خان آئندہ مزید محتاط رہیں گے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے، اس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے، میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا۔ اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ عمران خان نے شرمناک کا لفظ استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، 8 سال پہلے بھی عمران خان نے سپریم کورٹ سے معافی مانگی تھی، اس وقت بھی میں نے عمران خان کا یہی بیان سنا تھا، عمران خان اگر توہین آمیز الفاظ نہ کہتے تو آج یہاں کھڑے نہ ہوتے۔ عدالتی معاون ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں تین قسم کے الزامات لگائے گئے۔ جب گفتگو کی گئی تو معاملے کا جج نے فیصلہ کردیا تھا لیکن ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا، توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمو پذیر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر تقریر کا اثر پڑا۔ عدالتی معاون نے کہا کہ الفاظ افسوس ناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں۔ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے، ایک معافی پر اور دوسرا کنڈکٹ پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے۔ یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کے لیے احترام کا اظہار کیا گیا، اسلم بیگ نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے معافی بھی نہیں مانگی تھی۔ اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اسلم بیگ کون تھے اور کہا کہ چلیں آگے چلیں۔ منیر اے ملک نے عمران خان کے جواب پر توہین عدالت کیس ختم کرنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا کہ کیا ماتحت عدلیہ کا بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی طرح احترام کیا جاتا ہے۔ جلسے میں خاتون جج کا نام لے کر بہت کچھ کہا گیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا جواب توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ عدالت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کارروائی کو ختم کرنا چاہیے۔ دوسرے معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائے کی آزادی میں بھی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا تو وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا اور دوسرا راستہ نکالا، وہ نکالتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ امریکا میں ہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکائونٹ معطل ہوا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ پیروکاروں کو اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر کے لیے الفاظ کا چناؤ کتنا اہم ہے۔ عدالتی معاون نے اس موقع پر کہا کہ ایک لیڈر کی جلسے میں کہی گئی بات عدالتی کارروائی پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی، اسلام آباد میں سیاسی معاملات زیادہ ہیں۔ مخدوم علی خان نے بھی منیر اے ملک کی طرح عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کردی اور کہا کہ عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کر کے عمران خان کو معاف کردے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عمران خان کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہی نہیں، عدالتی معاون کے رائے پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جس کی ہم امید کر رہے تھے عمران خان کا جواب وہ نہیں ہے، سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں ریمارکس ہوتے تو جواب ایسا نہ ہوتا۔ بینچ میں شامل جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر عمران خان کو ایک موقع دیا تھا، عدالت کو عمران خان کے کنڈکٹ میں وہ بات نظر نہیں آرہی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا سے گھبرانا نہیں چاہیے وہ قابل اعتبار ہی نہیں ہے۔ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت عمران خان کو مزید موقع دے سکتی ہے، عمران خان اپنے مفصل جواب میں افسوس اور معذرت کے الفاظ استعمال کریں۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا کسی کی انا ماتحت عدلیہ کے وقار سے زیادہ اہم ہے، عمران خان کے جواب میں غیرمشروط معافی کی بات بھی نہیں کی گئی۔ عدالت کے تیسرے معاون پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو شوکاز نوٹس درست طور پر جاری کیا گیا۔ اختر حسین نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے غیر مشروط طور پر معافی نہیں مانگی گئی، اگر غیر مشروط معافی مانگی جاتی تو میں بھی کہتا ختم کر دیں۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیدیا۔