خود ترسی کی بیماری کا شکار خواتین
خود ترسی ایک ایسا جذبہ ہے جس میں انسان اپنے مصائیب اور تکالیف پر اپنی ذات کے لیے ترس اور دکھ محسوس کرتا رہتا ہے۔ اپنے آپ کو قابل رحم تصور کرتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے ہمدردی کریں اور توجہ دیں۔ جب یہ کیفیت ایک حد سے بڑھ جائے تو ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ خود ترسی خود غرضی کی ہی دوسری شکل ہے۔
خود ترسی انسان کو اس قدر جکڑ لیتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر دوسروں کی تکالیف اور ضروریات کو دیکھ ہی نہیں پاتا۔ اس کے اندر اپنی پریشانیوں کا اس قدر پھیلاو ہوتا ہے کہ اس میں کوئی دوسرا نہیں سما سکتا۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں مظلومیت ، خود ترسی ، اور بے بسی کی کیفیت کم و بیش تمام خواتین میں پائی جاتی ہے۔ میرے نزدیک یہ نفسیاتی بیماری ہے۔ جس سے بات کریں وہ دکھی ہے۔ وہ مظلوم ہے۔ بہت کم خواتین زندگی سے مطمئن دکھائی دیتی ہیں۔ مردوں کی نسبت عورتیں خود ترسی میں زیادہ مبتلا ہیں۔
ابھی چند دن پہلے ایک دوست کہنے لگی کہ جب مجھے کچن میں کام کرتے ہوئے چوٹ لگتی تھی تو میرے والد مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے تھے اور والدہ کو بھی ڈانٹ دیتے تھے کہ اسے کچن میں نہیں جانے دینا۔ اب دیکھو میرا شوہر کتنا ظالم ہے میرے ہاتھ پر چوٹ لگی ہے اور میں اسی حال میں سارے کام کر رہی ہوں۔ وہ اس صورت حال پر شدید دکھ کا شکار تھی۔
اتفاق سے اسی دن کچن میں کام کرتے ہوئے میرے ہاتھ پر چھری لگ گئی۔ اور کافی گہری چوٹ بھی تھی۔ اور میرے شوہر کے ہاتھ پر گرنے کی وجہ سے چوٹ لگ گئی۔ اب وہ صبح اٹھے دفتر چلے گئے۔ اور میں بھی گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ اسی زخمی ہاتھ سے بچوں کو نہلایا ، کھانا بنایا ، بچوں کے دیگر کام اور گھر کی مصروفیات کو دیکھا۔ اور میرے شوہر بھی زخمی ہاتھ کے ساتھ دفتر کے تمام امور نمٹا کر گھر پہنچے۔ اگر وہ مجھے منع کر دیتے کہ آج تم کوئی کام نہیں کرو گی، تو میرے بچوں کو کھانا کون دیتا ؟ تمام دن ان کی دیکھ بھال اور دیگر کام کون کرتا ؟ جب شوہر زخمی ہاتھ سے دفتر جا رہا ہے تو میں چھوٹے موٹے گھر کے کام کیوں نہیں کر سکتی ؟ پورا دن میرے اندر مظلومیت اور خود ترسی کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوا ۔ جب عورت خود کو کمزور سمجھتی ہے تو وہ بے جا توجہ چاہتی ہے۔ کمزور کی جگہ اگر میں اپاہج لفظ استعمال کروں تو زیادہ موزوں ہے۔ جیسے کوئی اپاہج چاہتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔ اس کے لیے ترس کھایا جائے۔ بعض عورتیں اس کیفیت کا شکار ہوتی ہے۔ یہ کیفیت ہمیشہ عورت کو دکھ میں مبتلا رکھے گی۔ مضبوط اور سمجھدار عورت کبھی خود ترسی کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتی۔ وہ شکوے شکایات سے نکل کر زندگی کی خوبصورتی کا لطف اٹھاتی ہے۔ خود ترسی کی کیفیت عورت کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ وہ ہر مثبت رویے سے بھی منفی پہلو ضرور نکال لیتی ہے۔ کیونکہ اسے دکھی رہنے میں لطف ملتا ہے۔ اور وہ بے خبر اس دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ خود ترسی کا شکار خواتین کبھی پر سکون نہیں رہتیں۔ وہ ہمیشہ مظلومیت کے حصار میں قید رہتی ہیں۔
یہ نفسیاتی کیفیت ہے۔ اس میں عورت اپنے جیسی دوسروں عورتوں سے موازنہ کر کے بھی دکھی رہتی ہے۔ وہ ہر بات سے دکھ کا پہلو ڈھونڈتی ہے۔ وہ بے جا توجہ چاہتی ہے۔ اور نہ ملنے کی صورت میں ملول رہتی ہے۔ جبکہ ایک پر اعتماد اور مضبوط عورت خوش رہنا جانتی ہے۔ وہ خود کو غیر ضروری پریشانیوں ، رویوں اور معاملات میں نہیں الجھاتی۔ وہ ہر منفی صورت حال سے بھی مثبت پہلو نکال لیتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کو خوبصورت بناتی ہے۔ اور ساتھ میں اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔ منفی سوچیں گھر کا ماحول خراب کرتی ہیںجبکہ مثبت سوچیں گھر کے ماحول کو پرسکون بناتی ہیں۔
خود ترسی کی بیماری کا شکار خواتین انتہائی خود غرض ہوتی ہیں ان میں اجتماعیت کی سوچ کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی ہر بات ان کی ذات تک محدود رہتی ہے۔ مجھے یہ نہیں ملا ، مجھ سے فلاں کا رویہ ایسا تھا ، مجھے یہ چاہیے تھا ، مجھے یہ کرنا تھا ۔۔۔۔ ہر چیز میں وہ اپنی ذات کو سامنے رکھتی ہیں۔ عورتوں نے خود کو بے جا مظلومیت کے حصار میں جو قید کر رکھا ہے اس سے باہر نکلیں۔ آپ نہ تو اپاہج ہیں نہ ہی مظلوم۔ دوسروں سے اپنے لیے ایک صحت مند انسان جیسے رویے کی توقعات وابستہ کریں۔ اس سے زندگی پرسکون ہو گی۔ اور اگر آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کا زیادہ تر وقت دکھی رہنے میں گزر رہا ہے۔ اور اپنی ذات سے باہر نہیں نکل پا رہی ہیں تو آپ کو ضرور نفسیاتی راہنمائی یا کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں۔جس طرح آپ دیگر مسائل کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ اسی طرح نفسیاتی مسائل کو بھی اہمیت دیں۔