• news

پختہ اصولوں کا مالک قائد

قائداعظم نے انگلستان میں تعلیم حاصل کی۔ وہ مغربی لباس پہنتے تھے ‘انگریزی زبان اور یورپی طور طریقوں پر انہیں اعلیٰ درجے کی دسترس حاصل تھی لیکن یہ ان کی شخصیت کی بیرونی تہہ تھی‘ ان کی روح سراسر مشرقی تھی۔ یہ باور کرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ ایک سولہ سالہ لڑکا جس نے قانون کی تعلیم کے لیے’ لنکنز ان ‘میں صرف اس وجہ سے داخلہ لیا کہ اس کے صدر دروازے پرحضرت محمدﷺکا نام لکھا تھا۔ اس لڑکے کے دل میں بقیہ زندگی کے دوران حضرت محمدﷺ سے محبت و عقیدت اور ان کی امت کی خیر خواہی اور خدمت کا جذبہ مستقل طور پر موجزن نہ رہا ہو۔ سنٹرل اسمبلی میں اسلامی وقف کا جو بل قائداعظم نے تیار کر کے پاس کروایا تھا اس سے ان کی دینی بصیرت اور فقہ اسلامی سے گہری اور وسیع واقفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ قائداعظم کے لیے افراد‘ اداروں اور اقوام کے درمیان خطِ تفریق صرف مذہب تھا۔ خدا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پختہ یقین نے ہی ان کے دل و دماغ کو اتنا مضبوط بنا دیا تھا کہ کوئی دنیاوی لالچ ‘ بڑی سے بڑی طاقت کی دھمکی یاذاتی اور گروہی مصلحت سے ان کے پایہ¿ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ اصولوں پر سودے بازی‘ مکروفریب‘ دروغ گوئی جو مغربی سیاست کا طرہ¿ امتیاز ہیں ‘ان سے قائداعظم کودور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ 
انڈیا ایکٹ 1935ءکے تحت صوبوں میں ہندوستانیوں کو گورنری اور وزارتی عہدے دینے کی تجویز پر جب پارلیمنٹ میں غور ہو رہا تھا تو وزیراعظم ریمزے میکڈانلڈ نے قائداعظم کو لالچ دیتے ہوئے کہا”مسٹر جناح! ہم انتظامی معاملات ہندوستانیوں کے ہاتھ میں دینے کے خواہشمند ہیں اور مجھے ہندوستان کے بڑے بڑے صوبوں کے گورنر مقرر کرنے کے لیے آپ جیسے قابل آدمیوں کی ضرورت ہوگی‘۔ قائداعظم نے میکڈانلڈ کو فوراً ٹوکتے ہوئے کہا۔ ”مسٹر وزیراعظم! کیا آپ مجھے رشوت دینے کی کوشش کر رہے ہیں“۔ اس جواب سے ریمزے میکڈانلڈ کو سخت حیرت اور مایوسی ہوئی۔ مغربی سیاست میں تو بنیادی اصول ہی عہدوں اور اقتدار کا حصول ہے اس لیے قائداعظم کی بات اس کی سمجھ سے بالا تر ہی رہی۔قائداعظم مشرقی وضعداری اور اخلاق کے پیکر تھے۔ تقسیم سے ذرا پہلے عبوری حکومت کے دور میں ایک موقع ایسا آیا کہ پنڈت نہرو اور لیڈی ماﺅنٹ بیٹن کے معاشقہ کے سکینڈل سے مسلم لیگ سیاسی فائدہ اٹھا سکتی تھی لیکن قائداعظم نے عبوری حکومت کے مسلم لیگی وزراءکو سختی سے منع کر دیا کہ کسی کے ذاتی سکینڈل کو سیاسی مقاصد کے لیے ہوا نہ دی جائے۔ ذاتی طور پر قائداعظم نے پارسی خاتون رتی بائی کو مشرف بہ اسلام کر کے شرعی نکاح کیا۔ ان کی اپنی چہیتی بیٹی نے جب ایک پارسی سے شادی کی تو اس سے عمر بھر کے لیے باپ اور بیٹی کا رشتہ توڑ لیا۔ 
خواتین سے تعلقات کے معاملے میں قائداعظم سراسر مشرقی اقدار کے پابند تھے۔ نوجوان قائداعظم کی ایک ہم عصر خوبصورت پارسی خاتون بیان کرتی ہیں:- ”مسٹر جناح بڑے نک چڑھے تھے۔ ہمیشہ لیے دیئے رہتے تھے۔ شام کو کلب جانے کی بجائے اپنے دفتر میں مقدموں کی فائلیں پڑھتے رہتے تھے“۔ لیڈی ویول ‘قائداعظم کے ”مشرقی حسن و جمال اور نفیس اطوار“ کی شیدائی تھیں۔ آل انڈیا کانگرس ورکنگ کمیٹی کی رکن بلبل ہند سروجنی نائیڈو قائداعظم کے نام عشقیہ نظمیں لکھا کرتی تھی اور کوئی جواب نہ پا کر کہتی تھی ”ہائے ہائے کتنا مغرور ہے!“
جس انداز کو خواتین غرور اور مرد رعونت کا نام دیتے تھے وہ دراصل باوقار سنجیدگی تھی جو انسان میں زہد و تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے۔ قائداعظم کے ذاتی خدمتگار کا بیان ہے کہ اس نے قائداعظم کو اکثر راتوں کو سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے۔ بحیثیت انسان قائداعظم نہایت حساس اور گرمجوش طبیعت رکھتے تھے۔ اپنے والدین‘ بہن بھائیوں اور اولاد کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت خالص مشرقی تھی۔ روزنامہ امروز لاہورمیں بتاریخ 12ستمبر1951ء کو محترمہ فاطمہ جناح کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا۔ محترمہ فرماتی ہیں۔ ”وہ (قائداعظم) اپنی ماں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ والدہ کی وفات کے کئی ہفتے بعد تک وہ غمزدہ رہے۔ والد کی وفات کی خبر ملی تو فرط غم سے بے ہوش ہو گئے تھے“۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن