• news

قائد اعظم کا معاشی پاکستان! ایک ادھورا خواب 

اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان نے اپنی آزادی کے 76 سال پورے کرلئے ہیں اور آج بانی ¿ پاکستان قائداعظم کو رحلت فرمائے بھی 74 سال گزر چکے ہیں۔ 
برصغیر کے مسلمان قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں متحد تھے۔ وہ حصولِ پاکستان کے لیے بے شمار قربانیوں کے ساتھ سرگرداں تھے۔ ہمارے مخالف ہندو، مسلمانوں پر طنز کے تیر چلاتے تھے کہ پاکستان کے حصے میں جو علاقے آ رہے ہیں وہ انتہائی پسماندہ ہیں۔ جلد ہی پاکستان معاشی طور پر کمزور ہونے کے ناطے ختم ہو جائے گا اور بھارت کی گود میں آن گرے گا۔ اس کا جواب قائد اعظم نے یہ یوں دیا کہ ”میں کہہ سکتا ہوں ایک عام فرد کے طور پر اور یہ میری پختہ رائے ہے کہ پاکستان کبھی دیوالیہ نہیں ہو گا بلکہ یہ ایک بہت طاقتور ملک ہو گا۔ اس کا جواب ہمیں پاکستان بننے کے ایک سال بعد پیسہ اخبار کے اس ادریے سے ملتا ہے جو 26 اپریل 1948ءکو شائع ہوا جس کے مطابق 10 ، اگست 1947ءسے 30 دسمبر 1947ءتک پاکستان سے 22 کروڑ کا مال برآمد کیا گیا اور 9 کروڑ کا مال درآمد کیا گیا ، یعنی اس عرصہ میں 13 کروڑ سے توازن پاکستان کے حق میں رہا۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کتنا شاندار ہے اور یہ اعداد و شمار پاکستان کے متعلق دشمنوں کے پروپیگنڈہ کا صحیح جواب ہیں۔ 
اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قائد اعظم بنیادی طور پر قانون دان تھے اور وہ اقتصادی اور معاشی معاملات پر گہری نظر نہیں رکھتے تھے۔ یہ محض خام خیالی تھی۔ وہ انتہائی دوراندیش اور زیرک انسان تھے۔ ان تمام عناصر پر ان کی گہری نظر تھی جو کسی بھی ملک کو اقتصادی اور معاشی طور پر خودکفیل بنا سکتے تھے۔ اسی لیے جناح اچھی طرح جانتے تھے کہ پاکستان میں شامل ہونے والے علاقے معاشی اور صنعتی طور پر پس ماندہ ہیں۔ جیسے جیسے پاکستان تحریک نے زور پکڑا ، آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں جناح کو ایک کمیٹی مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا کہ پاکستان کے مختلف زونوں میں معاشی اور سماجی ترقی کے لیے پانچ سالہ پروگرام کی ایک جامع سکیم تیار کی جائے۔ 
اس قرارداد کے مطابق ، جناح نے اگست 1944ءمیں 23 رکنی پلاننگ کمیٹی مقرر کی جس میں نواب علی نواز جنگ چیئرمین اور پروفیسر اے بی اے حلیم سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس کمیٹی میں قائد اعظم کی ذاتی دعوت پر جناب ڈاکٹر ذاکر حسین خان ، عبدالرب نشتر، لائق علی ، الیاس برنی ، احمد اصفہانی ، رفیع بٹ جیسی اپنے زمانے کی نابغہ روزگار شخصیات شامل تھیں۔ 1945ءتک ، منصوبہ بندی کمیٹی نے انتہائی مربوط اقتصادی ترقی پر ایک بیس سالہ (1945-1965ئ) رپورٹ تیار کی تھی۔ رپورٹ میں جار پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ جات شامل کیے گئے ، جس میں تعلیم کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا۔ جناح نے اس نظریہ کی مکمل حمایت کی۔ 14 جنوری 1945ءکو گجرات مسلم تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ، انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں اپنے لوگوں کی تعلیمی ، سماجی اور معاشی ترقی کے لیے اپنی قوتوں کو مضبوط بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم ہماری قوم کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ 
جناح 1943ءکے وسط سے مسلم چیمبرز آف کامرس کی فیڈریشن کے قیام کے لیے انتھک محنت کر رہے تھے ، جو بالآخر 1944ءکے آخر میں وجود میں آئی۔ 
پلاننگ کمیٹی کی تقرری 1943ءمیں کمیونٹی کے لیے ترقیاتی منصوبہ بنانے کی پہلی کوشش نہیں تھی۔ 1936ءکے بعد سے جب جناح نے مسلم لیگ کو زندہ کیا ، اس کے رہنماﺅں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک جامع ترقیاتی پروگرام کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سمت میں ایک پہل 1937ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنﺅ سیشن میں کی گئی۔ 
منصوبہ بندی کمیٹی کے مقاصد ہندوستان اور پاکستان کی صلاحیتوں کا جائزہ لینا تھا۔ قائداعظم نے کہا ، ”ہمارے پاس عملی طور پر ایک منصوبہ بند نظام کی تعمیر کے لیے مواد اور فرادی قوت کے تمام وسائل موجود ہیں ، اس کے باوجود ہم ان کا صحیح استعمال نہیں کر رہے اور ملک اس کی ضروریات کے مطابق اس کے وسائل کی غلط ایڈجسٹمنٹ کا شکار ہے“۔
اس طرح پندرہ ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو معاشی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق تھیں۔ -1 زرعی پیداواراور مٹی کے تحفظ اور جنگلات -2 جانوروں کی پرورش اور ڈیری -3 ماہی گیری -4 پانی کے استعمال اور دریا کی ریگولیشن -5 مواصلات اور نقل و حمل کی خدمات بشمول جہاز رانی -6 دیہی اور کاٹیج انڈسٹری ،-7 ایندھن اور بجلی ،-8 کان کنی اور دھات کاری ، -9 کیمیائی صنعت -10 مینوفیکچرنگ اور انجینئرنگ -11 ٹرانسپورٹ انڈسٹریز ، -12 فنانس -13 پبلک ہیلتھ -14 ہاﺅسنگ اور -15 ٹریڈ اینڈ کامرس پر ذیلی کمیٹیاں تھیں۔ ان 15 ذیلی کمیٹیوں کو پانچ سربراہوں کے تحت رکھا گیا ، یعنی زراعت ، صنعت ، ٹرانسپورٹ ،تجارت اور مالیات۔ ان سب کو ملک کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنی رپورٹوں کا مسودہ تیار کرنا اور پیش کرنا ضروری تھا۔ ان کمیٹیوں نے مسلسل تین سال دن رات ایک کر کے 1945ءمیں ایک شاندار منصوبہ بندی کا پروگرام قائد کی خدمت میں پیش کیا ۔
مذکورہ بالا مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ قائداعظم پیشہ ور ماہر معاشیات نہیں تھے‘ انہیں بنیادی تصورات پر مضبوط گرفت تھی جو کہ فلاح و بہبود پر مبنی معاشی فلسفہ ہے۔ انہوں نے معاشرے کو مناسب قابل عمل شکل میں دیکھا جس میں مجموعی طور پر کمیونٹی کے مفادات انفرادی مفادات سے بالاتر اور معاشی تعلقات خالص منافع کے حصول کے عزائم کے بجائے خیرسگالی اور دوسرے مفاد کی فکر سے متاثر تھے۔ اس قسم کے معاشرے کو عوام کے مفادات کو پورا کرنا چاہیے اور ان کو پورے ملک میں لوگوں کی مکمل حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ پاکستان کی معاشی تاریخ میں خاص طور پر منصوبہ بندی میں قائداعظم کا قابل قدر حصہ قابل تعریف تھا۔ 

ای پیپر-دی نیشن