• news

ماہ ستمبر ، پاک بھارت تعلقات اور اعتدال

ماہ ستمبر ایسا مہینہ ہے جس میں اخبارات، میڈیا اور ہمارے ذہنوں میں سب سے زیادہ باز گشت پاک بھارت تعلقات کے بارے میں گونجتی ہے۔ 6 ستمبر 1965ءاور بھارتی فوج کی لاہور کے جم خانہ میں شراب نوشی کے ساتھ جشن فتح کی خواہش میں بھڑکنے والی نفرت کی آگ اور اس آگ کے شعلوں کو اپنے لہو سے بجھاتے پاک فوج سے شہیدوں اور غازیوں کی داستانیں۔ ستمبر کا مہینہ ہو اور پاک بھارت تعلقات کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں بات نہ ہو، ممکن نہیں۔ پاک بھارت تعلقات پہلے شاید اس خطے کا مسئلہ تھے لیکن اب ان دونوں ممالک کے تعلقات پر تمام دنیا کی نظریں لگی رہتی ہیں، کیونکہ اب ان دونوں کے پاس 1965 ءوالا اسلحہ نہیں بلکہ دونوں ممالک ایٹمی قوت بن چکے ہیں اور ان کے مابین ہونے والا کوئی بھی بڑا تنازعہ یا ممکنہ جنگ تمام دنیا پر اثر انداز ہو گی۔ 
 اگست 1947 ءمیں 350سالہ برطانوی تسلط کا خاتمہ تقسیم ہند پر ہوا۔ اس تقسیم کی بنیاد سیاسی سے زیادہ مذہبی تھی اور اسکے نتیجے میں دو ممالک ، ایک بظاہر سیکولر(انڈیا) اور دوسرا اسلامی ملک پاکستان وجود میں آئے۔ و یسے تو قیام پاکستان سے قبل ہی ہندوﺅں اور مسلمانوں کے تعلقات مثالی نہیں رہے تھے۔ لیکن تقسیم کے نتیجے میں ،تقریباََ چالیس لاکھ ہندوﺅں اور پچاس سے ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی اور اس ہجرت کے دوران سکھوں اور ہندوﺅں نے بیدردی کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ انسانی فطرت کے تحت بدلے کی آگ میں جل کر اس سفاکی اور ظلم کے جواب میں کچھ جگہوں پر مسلمانوں نے بھی ہندوﺅں کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ آزادی کے فوری بعد کشمیر اور دیگر ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ ۔ کشمیر کو لے کر1948 ءاور 1965ءکی جنگیں ۔ سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا کردار بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ویسے تو روز اول سے ہندوﺅں نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا لیکن تنازعات کی لمبی فہرست نے پاک بھارت تعلقات میں موجود تناﺅ کو رفتہ رفتہ پکی دشمنی میں تبدیل کر دیا۔ اسکے بعد بھی سرحدی جھگڑوں سے لے کر سیاچین اور کارگل تک کی لمبی داستان ہے۔ دیگر تصفیہ طلب مسائل میں سرکریک، تلبل نیویگییشن پراجیکٹ، تجارت کے لیے سڑکوں اور ٹرانزٹ کے ممکنہ تنازعات وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں بھارت ایک جانب گوادر کو نقصان پہنچانے کے لیے چاہ بہار کو اسکے مقابلے میں کھڑا کرنے کے خواب دیکھتا ہے تو دوسری جانب اسکی شدید خواہش ہے کہ سی پیک کو روکنے کے لیے بلوچستان میں بدامنی پھیلے۔ اسی طرح افغان بھائیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے کی بھارتی خواہش افغانستان میں بھارتی سفارتخانوں سے شروع ہو کر کرکٹ کے میدانوں تک بہنچ چکی ہے۔ مستقبل قریب میں پانی کی اہمیت تیل سے بڑھ کر ہو گی۔ پاکستان اور بھارت کے مابین ” انڈس واٹر ٹریٹی“ پر ایوب خان اور نہرو نے 19 ستمبر 1960ءکو دستخط کئے۔ بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے ہوئے انڈس، جہلم اور چناب پر 41 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے اور 12 سے زائد ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ ہر وقت اسلام اور پاکستان کے خلاف بڑھکیں لگانے والے بھار ت کو شاید یہ ادراک نہیں ہے کہ اگر اب خدانخواستہ کوئی پاک بھارت جنگ ہوئی تو وہ 65ءیا 71ءوالی جنگ نہیں ہوگی۔ 
جہاں ایک جانب بھارتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی ہے تو دوسری جانب کچھ لوگوں بھارت کو تباہ کر کے دنیا سے مٹانے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ (ظاہر ہے اسکی وجہ بھارت کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے پے در پے زخم اور آج تک جاری پاکستان مخالف بھارتی پالیسیاں ہیں۔) یہ سوچ کہ تقسیم ہند سرے سے ہی غلط تھی کیونکہ ہمارا کلچر ، رہنا سہنا سب ایک ہےجانے یہ سرحد کیون بن گئی؟ سرے سے غلط ہے ۔بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ جموں وکشمیر میں نافذ قانون کے مطابق گائے کو ذبح کرنا جرم ہے جس کی سزا 10 برس قید تک ہو سکتی ہے اور اگر کسی کے قبضے سے بڑا گاشت صرف برآمد ہو جائے تو اس پر بھی ایک برس تک قید کی سزا ہے۔ یہ تضادات صاف بتا رہے ہیں کہ اس دہشت گردی اور بربریت کا تعلق دراصل نہ تو ہندو مذہب سے ہے اور نہ گائے کے احترام سے بلکہ یہ صرف مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے ایک بہانہ ہے۔ اسکے بعد بھی ہمارا ” لبرل مافیا “ پوچھتا ہے کہ یہ سرحد کیوں بن گئی؟
 اس سب کے باوجود دونوں ممالک کے لیے بہتر بلکہ موجودہ عالمی حالات میں لازم ہے کہ ماضی میں زندہ رہنے کی بجائے آگے بڑھیں۔ اس کے لیے ایک طرف تو ہمیں بھارت کے بارے میں اپنی سوچ میں اعتدال لانا ہوگا۔ بھارت کو بھی یہ بات سمجھنے اور دل سے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دو قومی نظریہ اور پاکستان کا وجود ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو اب انشاءاللہ تا قیامت قائم رہنا ہے۔ ہندوستان پاک بھارت سرحد کی حقیقت اور وجود کو تسلیم کرتے ہوئے، پاکستان کے ساتھ برابری کی سطح پر بذریعہ بات چیت مسائل کو حل کرنے اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے بارے میں سنجیدگی دکھائے۔ بھارت کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اتنی دہائیوں میں کشمیریوں کی سوچ ا ور آزادی کی تڑپ ختم نہیں ہو سکی اور نہ ہی بلوچستان اور ”سی پیک“ کے بارے میں اسکے ناپاک ارادے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر بھارت عقل اور دانشمندی سے کام لے اور اپنے دل سے پاکستان اور اسلام دشمنی نکال دے تو سی پیک کا یہی منصوبہ بھارت سمیت تمام خطے کے عوام کے لیے اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے دروازے کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان تمام حقائق کو تسلیم کرنا تمام خطے خاص طور پر پاکستان اور بھارت دونوں کے عوام کے حقیقی مفاد میں ہے۔

ای پیپر-دی نیشن