• news

قدرت اللہ شہاب اور ’شہاب نامہ‘ (1)

قدرت اللہ شہاب سے میری صرف دو ملاقاتیں ہوئیں اور ان میں کم و بیش تیس سال کا طویل وقفہ ہے۔ پہلی ملاقات جھنگ میں ہوئی۔ اسے ملاقات کہنا بھی ایک طرح کی ستم ظریفی ہے۔ میں نے انھیں چند مقامی ادیبوں کے ساتھ دیکھا۔ میرا لڑکپن تھا کوئی بات چیت نہیں ہوئی نہ ہی میرا تعارف کرایا گیا لیکن ان کے واقعات شیر افضل جعفری اور ایثار راعی سے سنے۔ ان دونوں کا ذکر ’شہاب نامہ‘ میں سرسری طور پر موجود ہے۔ ان دنوں شہاب خاصے خوش لباس ہوتے تھے۔ جھنگ میں جو لوگ ان سے اپنے مسائل کے حل کے لیے ملتے تھے انھیں قدرت اللہ شہاب کی تعریف میں رطب اللسان ہی پایا۔ سب یہی کہتے تھے کہ ان میں افسرانہ خوبو مطلق نہیں تھی، عام آدمی ان سے مل سکتے تھے اور ان کے جائز کام آسانی سے ہو جاتے تھے۔ میری والدہ جھنگ میونسپل کمیٹی کے ایک سکول میں پڑھاتی تھیں۔ انھیں اس سلسلے میں کچھ مسائل درپیش تھے۔ وہ اپنا شٹل کاک برقع سر پر رکھ کر ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر پہنچ گئیں اور بآسانی ڈپٹی کمشنر کی ’ماں جی‘ سے مل لیا اور مسائل بتائے۔ ماں جی نے بیٹے سے سفارش کی اور مسائل دنوں میں حل ہو گئے۔
شہاب سے میری دوسری ملاقات اسلام آباد میں ایک اہلِ قلم کانفرنس کے دوران ہوئی۔ یہ 1979ءکی بات ہے۔ کانفرنس کے کسی اجلاس میں چائے کا وقفہ تھا۔ لوگ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔ کہیں قریب ہی مجھے حفیظ جالندھری دکھائی دیے جو مجھ پر بہت شفقت کرتے تھے۔ ان کے ساتھ چھوٹے قد کے ایک سفید ریش بزرگ نہایت سادہ لباس میں ملبوس کھڑے تھے۔ میں نے حفیظ صاحب سے علیک سلیک کی۔ انھوں نے اپنے پاس کھڑے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: تم نے انھیں پہچانا؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو بولے: قدرت اللہ شہاب۔ میں نے بہ صد اشتیاق ان کی جانب دیکھا۔ حال احوال کے رسمی الفاظ ادا کیے۔ وہ بڑی محبت سے پیش آئے۔ قریب ہی چند کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم وہاں بیٹھ گئے۔ انھوں نے بڑے شائستہ اور دھیمے لہجے میں پوچھا: آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ میں نے جواباً کہا: غیر ملکیوں کو اردو سکھانے کے لیے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ انھوں نے کتاب کے نام کے بارے میں استفسار کیا۔ میں نے جواب دیا کہ روایتی سا نام ہے۔ اتنے میں کچھ اور لوگ آ گئے اور میری خصوصی ملاقات ختم ہو گئی۔
اگرچہ ان سے میرا ذاتی رابطہ اتنا ہی رہا لیکن ان کے بعض قریبی احباب سے میری بہت ملاقاتیں رہیں۔ ان میں سے حفیظ جالندھری کا ذکر تو کر ہی چکا ہوں۔ علاوہ ازیں، ابن انشا، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور ممتاز مفتی سے بھی شہاب کا بہت ذکر سنا۔ میری ایک عادت یہ ہے کہ میں کسی کی رائے پر اپنی رائے قائم نہیں کرتا اگرچہ رائے قائم کرنے میں ان کے تا¿ثرات سے مدد ضرور لیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے ان کے مداحین اور مخالفین کی باتوں اور تحریروں سے شہاب کے بارے میں جو رائے قائم کی وہ مجموعی طور پر بہت مثبت ہے۔ شہاب نے اپنی ذاتی حیثیت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ انتہائی دیانت داری سے کام کیا۔ نمود و نمائش کا شوق نہیں تھا۔ کبھی کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ اپنے اعلیٰ ترین مناصب کے باوجود مالی طور پر مشکل سے گزر اوقات کی۔ یحییٰ خان کے دور میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب بیرونِ ملک انھیں ٹھکانے لگانے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان کے اکلوتے بیٹے کو اغوا کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔ ان کی بیوی جو بجائے خود سادگی، صبر اور قناعت کا مجسمہ تھی، ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونے کے باوجود گھریلو عورت کی طرح بسر اوقات کرتی رہیں اور مالی وسائل کی کمی کے باعث بیمار رہنے لگیں اور صرف چالیس سال کی عمر پائی، لیکن شہاب نے ان شدائد اور مصائب کو برداشت کیا اوران کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہ ہوئی۔
قدرت اللہ شہاب کو رائٹرز گلڈ کے قیام پر بہت طنز و تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں، اس میں رتی برابر فائدہ شہاب نے نہیں اٹھایا۔ شروع ہی سے انھیں یہ خیال رہتا تھا کہ شعراءاور ادباءمفلوک الحال لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تخلیقی سرگرمیوں میں منہمک رہتے ہیں اور عموماً بھوکے مرتے ہیں، ان کے لیے روزگار کے وسائل فراہم کیے جائیں اور حکومتوں کو ان کے مسائل بتائے جائیں اور جہاں تک ممکن ہو ان کے لیے گزر اوقات کا بندوبست کیا جائے۔ علاوہ ازیں، ان کے مقام اور مرتبے کو تسلیم کرایا جائے۔ ان کی عزت افزائی کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے رائٹرز گلڈ نے کچھ کام بھی کیا لیکن لکھنے والوں میں کچھ ایسی منفی عادات ہوتی ہیں کہ بہت جلد رشک و حسد میں مبتلا ہو کر مسائل کے حل میں معاون ہونے کی بجائے انھیں پیچیدہ بنا دیتے ہیں اور اداروں کو مفید بنانے کی بجائے اناو¿ں کے ٹکراو¿ کی نذر کر ڈالتے ہیں۔ یہی رائٹرز گلڈ کے سلسلے میں ہوا۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ گلڈ کی بہت مہنگی پراپرٹی ادیبوں کی بہبود کی بجائے بیکار پڑی ہوئی ہے اور سال ہا سال سے ایسی الجھنوں کا شکار ہے جو بظاہر ناحل پذیر نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے اس میں گلڈ کے بانی کا تو کوئی قصور نہیں۔
نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ادیب قدرت اللہ شہاب کو سوشلسٹ اور کمیونسٹ سمجھتے تھے۔ میرے کچھ قریبی دوست یہ کہا کرتے تھے کہ شہاب نے رائٹرز گلڈ اس لیے بنوائی تھی کہ اشتراکی نظریات رکھنے والے ادیبوں کو سرکاری تحفظ دلایا جائے جب کہ بائیں بازو کی طرف میلان رکھنے والے ادیب یہ سمجھتے تھے کہ یہ ان کے ساتھیوں کو انقلابی نظریات سے دور کرنے اور حکومت کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے نے ہر قسم کے نظریات رکھنے والے ادیبوں کو برابر کی اہمیت دی۔ یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ہر ادارے میں اپنی ’ہنرمندی‘ کے سبب آگے نکل جاتے ہیں اور ذاتی مفاد کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر یہ رائٹرز گلڈ ہی میں نہیں، ہمارے ارد گرد ہر جگہ یہی کچھ ہو رہا ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں کیونکہ یہ فطرتِ انسانی کا ناگزیر حصہ ہے جو ہزار ہا سال کے عدمِ تحفظ کی وجہ سے انسانوں میں پیدا ہو گیا ہے اور یہ ہماری سائیکی میں اس طرح راسخ ہے جیسے کپڑے میں تانا بانا ہوتا ہے۔ بقول قاآنی:
نہفتہ در عروقِ من چوں پود ہا بہ تارہا
(ترجمہ: یہ میری رگ رگ میں یوں پنہاں ہے جیسے تار و پود ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں)۔
(جاری)

ای پیپر-دی نیشن