ایک سوشلسٹ مسلم لیگی
روزنامہ’ نوائے وقت‘ مو¿رخہ 8ستمبر2022ءکے صفحہ اول پر دو خبروں میں ہماری 75برس کی پوری حکومتی کارکر دگی موجود ہے ۔ پہلی خبر ملکی قرضہ کے بارے میں ہے ۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے مطابق وفاقی حکومت کا قرض 50503ارب روپے ہوگیا ہے ۔جو صرف ایک سال کے دوران 27فیصد بڑھاہے ۔ حکومت کا مقامی قرض 31000ارب روپے ہے جو ایک سال میں 16فیصد بڑھا ہے۔ حکومت کا بیرونی قرض 19000ارب روپے ہے جو ایک سال میں 49فیصد بڑھاہے۔ دوسری خبر تصویری ہے ۔ تونسہ شریف بستی حمل والی میں ایک انسان اور ایک کتا ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ کالم نگار نہیں جانتا کہ عمران خان کے ’وسیم اکرم پلس‘کے نو تعمیر شدہ فارم ہاﺅس سے یہ بستی کتنی دور ہے ؟ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کرتے ہوئے عمران خان نے اس کی واحد خوبی یہ بیان کی تھی کہ اس کے گھر میں ابھی تک بجلی نہیں لگی ۔ اب کون پاکستان کے محبوب ترین سیاسی رہنما سے پوچھ سکتا ہے کہ حضور ! ان کے فارم ہاﺅس کے بجلی کا تازہ بل کتنا ہے ؟ برسوں پہلے کالم نگار نے گجرات کے ایک بڑے چودھری صاحب کی ڈیوڑھی میں دیکھا کہ بجلی کے میٹرچل نہیں رہے تھے ۔ کالم نگار کو بجلی کے میٹروں کی طرف متوجہ دیکھ کر چودھری صاحب بولے ۔ ادھر حیرت سے مت دیکھو ۔ ہم نے انہیں رکے رہنے کا حکم دے رکھا ہے ۔
اس موقع پر سندھ سے ایک بلند آواز سن لیں ۔ ممتاز ڈرامہ رائٹر نور الھدیٰ شاہ کہہ رہی ہیں کہ ریاست پاکستان اور پاکستانی اشرافیہ کی تین ناپسندیدہ ترین اقوام سندھی ، سرائیکی اور بلوچ اس وقت سیلاب کی نذر ہو رہی ہیں۔ کبھی اس معزز خاتون سے ملاقات ہوئی تو پوچھوں گا کہ آپ نے یہاں لفظ اقوام کیوں استعمال کیا ہے ؟
اب شاید سقوط ڈھاکہ لکھنا مناسب بھی ہے یا نہیں ؟ بنگلہ دیش کے قیام کو پچاس برس ہو گئے ہیں۔ اس سلور جوبلی کے موقع پر انہوں نے سرکاری طور پر ایک اشتہار شائع کیا ہے ۔ اس میں پاکستان اور بنگلہ دیش کا تقابل کیا گیا ہے ۔ اس تقابل کا یوں اندازہ لگائیں کہ کالم نگار کا اپنے کالم میں لکھنے کو جی نہیںچاہتا۔اک شاعر نے کہا تھا:
بس اک قدم پڑا تھا غلط راہ شوق میں
منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی
ادھر ہمارا قومی مسئلہ یہ ہے کہ روز اول ہم نے پہلا قدم ہی غلط سمت اٹھایا تھا۔ جاگیرداری سے ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ملک ہندوستان نے آزادی کے ابتدائی دنوں میں ہی اپنا پنڈ چھڑا لیا تھا۔ ہنگامی حالات میں رات کو بھی کھلنے والی عدالتوں کے پاس عابد حسن منٹو کی جاگیرداری کے خلاف رٹ کے لئے کوئی وقت نہیں۔ شاید اس کی موت کا انتظار ہے ۔ وہ بہادر بوڑھا اور کتنے برس زندہ رہے گا؟ جاگیرداری ختم نہ کر سکنے کے باعث ہماری سیاسی جماعتوں پر جاگیرداروں کا غلبہ ختم نہ ہو سکا۔ ملتان میں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہو رہا ہے ۔ مقابلہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے درمیان ہے ۔ شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی اپنے باپ سے زیادہ موثر اور اچھی مقرر ثابت ہوئی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ انتخاب دو نمائندوں کی جنگ نہیں ، یہ دو خاندانوں کی بھی جنگ نہیں ، یہ دو جماعتوں کی بھی جنگ نہیں ، یہ جنگ دو نظریوں کی ہے ۔ اسے کوئی جا کر یہ بتائے کہ یہ جنگ محض اسلئے ہے کہ کہیں سیاست جاگیردار خاندانوں کے نرغے سے آزاد نہ ہو جائے ۔
میاں افتخار الدین کا باغبانپورہ کے ایک امیر کبیر گھرانے سے تعلق تھا۔ وہ ایچی سن کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ چلے گئے ۔ برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران میاں صاحب کو برطانوی جمہوریت کے براہ راست مشاہدے کا موقع ملا۔ وہاں کے ترقی پسند، روشن خیال عناصر سے ربط و ضبط ، آکسفورڈ کی علمی فضا اور وہاں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے طلباءکی صحبت نے ان کے فکر و نظر اور سوچ و بچار پر بہت اثر ڈالا۔ انہیں اپنے دیس کے مجبور عوام کی غربت ، محرومیوں اور تذلیل کا شدید احساس ہونے لگا۔ اس احساس نے صورتحال بدلنے کی خواہش اور عمل کے جذبے کو بیدار کر دیا۔ ایک رئیس گھرانے کے نازو نعم میں پلے سپوت نے ایسی رنگین اور دلفریب محفلوں سے کنارہ کش ہو کر قومی آزادی اور معاشی انقلاب کی پرخطر راہوں پر چلنے کا انتخاب کرلیا۔ ہندوستان پہنچ کر میاں صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انڈین کانگریس میں شمولیت سے کیا۔ 1937ءکے انتخابات کے بعد انہیں پنجاب اسمبلی کانگریس کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ 1938ءمیں کانگریس کے اندر بننے والی کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک میاں صاحب کا نام بھی تھا۔ پھر میاں صاحب مسلم لیگ میں چلے آئے ۔ نومبر 1947ءکو انہیں پنجاب مسلم لیگ کا صدر بنا دیا گیا۔ وہ پہلی آئین ساز اسمبلی کے رکن بھی تھے ۔ بطور رکن مسلم لیگ میاں صاحب نے قرار داد مقاصد کے پیچھے چھپی سیاست کا پردہ چاک کیا۔ انہوں نے اپنی زور دار اور تاریخی تقریر میں لیاقت علی سرکار کو اسلام اور غیر اسلام کا کھیل شروع کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ انہیں 18ستمبر1947ءکو حضرت قائد اعظم نے پنجاب میں وزیر بحالیات اورمہاجرین مقرر کیا تھا۔ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ان کا استدلال یہ تھا کہ ان جائیدادوں کے ذریعے پاکستان میں سماجی ، معاشی انقلاب لایا جا سکتا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ اس کے لئے سرکار کو انہیں قومی تحویل میں لینے کا اعلان کرنا ہوگا۔ ان کی یہ تجویز اقتدار پر براجمان حلقوں کو پسند نہ آئی جو متروکہ املاک کو اپنی من مرضی کے افراد میں بانٹنا اور ہڑپ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے میاں افتخار نے محض 44دنوں بعد یعنی 2نومبر 1947ءکو استعفیٰ دے دیا۔ آخر کار 1950ءمیں انہوں نے مسلم لیگ چھوڑ دی ۔
٭....٭....٭