وزیراعظم ،سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹیں
جناب وزیر اعظم ،قوموں پر آزمائشیںآتی رہتی ہیں اور وہی قومیں امتحان میں سرخرو ہوتی ہیں جو عذاب اور آزمائشوں کے بعد منظم طریقے سے اقدامات کر کے آنےوالے وقت کے لیے خود کو محفوظ کر لیتی ہیں۔ لیکن وہ قومیں ہمیشہ پے در پے مشکلات کا شکار ہی رہتی ہیں جو مشکل وقت گزر جانے کے بعد آزمائش کو ایسے بھول جاتی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔ بطور مثال آرمی چیف کی جانب سے (کالام ) میں دریائے سوات کی منہ زور لہروں کی نذر ہونے والے کثیر المنزلہ ”ہنی مون ہوٹل“ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ 2010ءمیں بھی ایسے ہی سیلاب کی زد میں آکر اس ہوٹل کی عمارت تباہ ہوئی تھی لیکن انتظامیہ کی ملی بھگت سے پھر اسی جگہ ہوٹل تعمیر کرلیا گیا ۔ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے ۔کچھ ایسے ہی واقعات کراچی میں بھی ہو چکے ہیں، موسلادار بارش کی وجہ سے مسائل کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔میں نے اپنی آنکھوں سے پیپلز پارٹی کے وڈیروں کو سیلاب زدگان کے ہاتھوں زودکوب ہوتے دیکھا۔ یہی وجہ ہے جہاں سیلاب کا پانی اب بھی موجود ہے وہاں زندگی ناپید ہو چکی ہے اور جہاں سیلابی پانی خشک ہو چکا ہے وہاں سندھ حکومت کے اداروں کے پاس نہ تو کوئی پلاننگ ہے اور نہ کو ئی منظم پروگرام ۔ جہاں تک بلوچستان میں سیلاب سے تباہی کا تعلق ہے، ڈاکٹر اسرار احمد کے مطابق ہم دین سے جتنا دورہوتے جا رہے ہیں ، عذاب الٰہی کسی بھی وقت پر آسکتا ہے،وہ چاہے کسی بھی شکل میں آئے۔ جنوبی پنجاب کا ضلع راجن پور سب سے زیادہ متاثرہوا ہے ،جہاں پہلے بھی دریائے سندھ کا پانی تباہی مچاتا رہا ہے ، یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ لیکن جناب وزیراعظم میں آپ سے جو بات کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ سیلاب کا پانی آج نہیں تو کل اتر ہی جائے گا اس کے بعد جن مسائل کی جانب توجہ مبذول ہونی چاہئیں وہ یہ ہیں۔ اس وقت ہمارے تمام دریا زمین کی سطح پر بہتے ہیں ،تمام دریا¶ں اور آبی گزرگاہوں کو ریت اور مٹی نکال کر گہر ا کرکے اسی مٹی سے دریا کے کنارے کو مضبوط بنانے کا کام لیا جائے ۔اس مقصد کے لیے چین اور چینی ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب چین کے دریا¶ں میں بھی ہر سال سیلاب تباہی مچایا کرتے تھے لیکن حکومت چین کی بہترین حکمت عملی کی بدولت اس کے تمام دریا¶ں کو اس قدر گہر ا کرکے وہاں سے نکلنے والی ریت اور مٹی کو دریا¶ں کے دونوں کناروں پر ڈال کر ایسے مضبوط بند بنا دیئے کہ موسم برسات میں بھی دریااپنی حدود سے باہر نہیں نکل سکتے ۔دوسرا اقدام یہ کیا گیا کہ ہر دریا پر آٹھ دس ڈیم بناکر فالتو پانی کو ملکی زراعت کے لیے محفوظ کرلیاگیا ۔ اس تناظر میں پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جس کے دستیاب پانی کا بڑا حصہ انسانی آبادیوں میں تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان میں جہاں جہاں سے سیلابی پانی طوفانی رفتار سے گزرا ہے، انہیں دریائی گزرگا ہ ڈیکلیر کرکے وہاں تجاوزات کو ہر ممکن روکا جائے اور اس گزرگاہ کو گہرا کیا جائے اور وہاں سے نکلنے والی مٹی کو دونوں کناروں پر ڈال کر مضبوط بند تعمیر کر دیئے جائیں ۔ یہی حکمت عملی چاروں صوبوں میں اپنائی جائے ۔بلوچستان اور سندھ کی دیہی آبادی جو سیلاب کی نذر ہوچکی ہے ، ملکی اورغیرملکی تعمیراتی کمپنیوں کو ایک گروپ بنا یا جائے اور یونین کونسل کی سطح پر تقسیم کرکے سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاک بناکر ایسے پختہ مکانات تعمیر کیے جائیں جو آنے والے طوفانوں اورسیلابوں کی شدت کوآسانی سے برداشت کرسکیں ،ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے جو مالی اور تکنیکی امداد مل رہی ،اسے بروئے کار لاکردریا¶ں کے سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کالاباغ سمیت ہر دریا پر آٹھ دس ڈیم تعمیر کیے جائیں اور کسی کی مخالفت کو خاطر میں نہ لایا جائے ۔خوش قسمتی سے اتحادی حکومت میں سندھ اور خیبرپختونخوا کی وہ سیاسی جماعتیں شامل ہیں جو کبھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیا کرتی تھیں ،یہ آپ کی ذہانت کا امتحان ہے کہ آپ انہیں اس بات پر آمادہ کرلیں کہ کالا باغ ڈیم سمیت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی مزید ڈیم بنائے جاسکتے ہیں ۔اگر آپ کامیاب رہے تو آئندہ سرزمین پاکستان سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے گی ۔ بہرکیف جہاں جہاں سے ریلوے ٹریک ،سڑکیں اور موٹر ویز سیلابی پانی کی زد میں آئے ہیں ان تمام مقامات پر ریلوے ٹریک سمیت تما م شاہراہوں کو نہ صرف مزید اونچا کیا جائے بلکہ آئندہ وہا ں سے سیلابی پانی گزرنے کے لیے کشادہ اور مضبوط پل بھی تعمیر کیے جائیں ۔یہی حکمت عملی اپنا کر آئندہ سیلاب سے بچا جاسکتا ہے ۔