• news

ججز تعداد کی بجائے کابلیت بڑھائی جائے وزیر قانون ریلوے تنصیبات پر حملے کی سزایئں کم کرنے کا بل منظور


 اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ ین این آئی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے رکن قادر مندو خیل نے تجویز دی ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 26ہونی چاہیے۔ جس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعداد بڑھانے کی قابلیت بڑھائی جائے، ججز کی تعداد بڑھائیں گے تو کروڑوں روپے کے اخراجات آئیں گے، سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، ہمیں بڑے پیمانے پر طریقہ کار بنانا پڑے گا، پورے یقین سے کہتا ہوں ججز کی تعداد بڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ججز تقرری یا تعداد ایک بہت بڑا فیصلہ ہے اس لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی محمود بشیر ورک کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں کمیٹی ارکان نے گزشتہ کمیٹی کے منٹس آف میٹنگ کی منظوری دے دی۔ کمیٹی کے رکن قادر مندو خیل نے کہاکہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، 24 کروڑ کی آبادی کیلئے سپریم کورٹ میں صرف 17 ججز ہیں، اس وقت ملکی عدالتوں میں 17 لاکھ کیس زیر التواء ہیں، کمیٹی رکن نے کہا کہ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ججز خود اپنی تعداد کیوں نہیں بڑھاتے؟۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری عدلیہ 140 ملکوں میں سے 128 نمبر ہے۔ کمیٹی رکن نے کہاکہ انصاف کا یہ نظام ہمارے لئے شرم کا باعث ہے، میری گزارش ہے کہ ججز کی تعداد بڑھائی جائے۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد چھبیس ہونی چاہیے۔ قادر مندو خیل نے کہاکہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 ہے مگر اب 12 ججز موجود ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تعداد بڑھانے کی بجائے قابلیت بڑھائی جائے، آپ ججز کی تعداد بڑھائیں گے تو کروڑوں روپے کے اخراجات آئیں گے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، ہمیں بڑے پیمانے پر طریقہ کار بنانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں ججز کی تعداد بڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ کمیٹی رکن سید نوید قمر نے کہا کہ میں اعظم نذیر تارڑ سے متفق ہوں ججز کی تعداد بڑھانے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اجلاس کے دوران وزیر قانون نے ریلوے ایکٹ ترمیمی بل 2022 قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں پیش کر دیا۔ وفاقی وزیر قانون وانصاف نے کہاکہ ریلوے تنصیبات پر حملہ کرنے کی صورت میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا تھی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ اب سنگین حادثے یا حملے کی صورت میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت بھی سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہے، اس بل میں یہی ترمیم کی ہے کہ ان سزاؤں کے علاوہ کوئی اور سزا متعین کردی جائے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انسانیت کی بنیادوں پر اتنی سخت سزائیں ختم کردی جائیں۔ سید نوید قمر نے کہاکہ دہشت گردی دہشت گردی ہوتی ہے چاہے جہاں بھی ہو، دہشت گردی کی سزا انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت دی جاتی ہے۔ سید نوید قمر نے کہاکہ ریلوے کے پاس خاص قسم کا الگ قانون ہونا کوئی جواز نہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ یہ غیر ضروری نو آبادیاتی قوانین ختم کردینے چاہئیں۔ قادر مندو خیل نے کہاکہ میں 32 سال سے ریلوے یونین کا صدر ہوں، کراچی کا گیلانی اور ژوب ریلوے سٹیشنوں پر مکمل قبضہ کرلیا گیا ہے، پہلے قبضے چھڑوا لیں پھر پھانسی بھی دے لیں گے۔ رکن کمیٹی نفیسہ نے کہا کہ ایک طرف آپ سزائے موت اور عمر قید ختم کرکے صرف بیس ہزار جرمانے کی سزا دے رہے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ایسے کر لیتے ہیں کہ بیس ہزار سے لے کر زیادہ زیادہ جو جرم کی نوعیت دیکھ کر لگے۔ محمود بشیر ورک نے کہاکہ جو بھی قوانیں ہیں انہیں ختم کرنے کی بجائے یہ دیکھنا ہوگا سزائیں لاگو کیوں نہیں ہورہی، سزائیں نرم کرنے کی بجائے سخت کی جانے چاہئیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ سزائیں بڑھانے سے نظام نہیں چلتے قانون لاگو کرنے سے نظام چلتا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ریلوے ایکٹ ترمیمی بل 2022 کثرت رائے سے منظور کرلیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو قوانیں موجود ہیں انہیں ختم کرنے کی بجائے یہ دیکھنا ہوگا سزائیں لاگو کیوں نہیں ہورہی، سزائیں نرم کرنے کی بجائے سخت کی جانے چاہئیں۔ چیئرمین کمیٹی نے اس موقع پر ججز کی تعیناتی اور ججز کی تعداد سے متعلق سپریم کورٹ بار کے صدر اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ودیگر کی تجاویز لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ براہ راست شراکت دار ہیں انکی رائے ضروری ہے۔ قادر مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ بار ایسوسی ایشن کی رائے سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن جوڈیشل کمشن پر اعتراض ہے کیونکہ وہ اپنے بھانجوں بھتیجوں کو ہی صرف جج لگاتے ہیں، مجھے جوڈیشل کمشن کے ججز کی رائے قابل قبول نہ ہوگی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قانون شہادت ترمیمی بل 2022 پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ قانون شہادت کا بل بہت پرانا ہے، سائنسی بنیادوں پر تحقیق اور شواہد عدالت میں قابل قبول نہیں تھے، سائبر کرائم اور بم دھماکوں کے کیسز میں اب سائنسی بنیادوں پر تحقیق اور شواہد وقت کی ضرورت ہیں، قانون شہادت کے قانون کے تحت عدالت براہ راست شہادت قبول کرتی ہے، تھرڈ پارٹی کی شہادت قابل قبول ہے۔ قادر مندوخیل نے پوچھا کہ اس وقت قانون شہادت ترمیمی بل کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے؟ جس پر سیکرٹری وزارت قانون و انصاف نے بتایا کہ اگر کوئی دھماکہ ہوجائے اور بم ڈسپوزل سکواڈ کے آدمی کی شہادت عدالت میں نہیں مانی جاتی، اس وجہ سے اب سائنسی بنیادوں پر تحقیق شواہد کا حصہ بننا چاہئے۔ رکن کمیٹی نے کہا کہ ایک دو میٹنگز میں اس بل پر بحث ہونی چاہئے تاکہ ہم سمجھ سکیں، تب تک اس بل کو موخر کردیا جائے۔ رکن کمیٹی مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ پاکستان بہت پیچیدہ ملک ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بل اہم ہے یا نہیں، میرے لئے یہ بل بہت اہم ہے، میں اس کے حق میں ہوں۔ بعد ازاں چیئرمین کمیٹی نے دونوں بل مزید بحث تک کے لئے موخر کر دیئے۔ کمیٹی اجلاس میں وفاقی وزیر قانون، سیکرٹری وزارت قانون و انصاف سمیت اراکین کمیٹی نے شرکت کی۔

ای پیپر-دی نیشن