سیلاب سے مستقل بچا¶ کے منصوبے بنائیں
پہلے 2010ءمیں سیلاب آیا تو سوات‘ نوشہرہ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان‘ راجن پور‘ رحیم یار خان کے بعد سندھ کے دیہی علاقے بھی متاثر ہوئے کیونکہ شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے اچانک دریا¶ں میں پانی چھوڑے جانے کے بعد ہمارے پاس اس وافر پانی کو محفوظ کرکے قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے استعمال کرنے کا کوئی انفراسٹرکچر موجود نہیں اور چند سال بعد دوبارہ وافر میٹھا پانی ہمارے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن جاتا ہے۔ اب ایک بار پھر 2022ء میں درج بالا تمام علاقے تباہی کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے جنرل ایوب خان کے بعد کئی دہائیوں میں کوئی ڈیم نہیں بنایا۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے متعلق کوئی کام نہیں ہوا۔ کالا باغ ڈیم کا ذکر ہوا تو خیبرپختونخواہ نے نوشہرہ کے ڈوب جانے کا کہہ کر اسکی مخالفت کردی حالانکہ کالا باغ ڈیم تو نہیں بنا لیکن نوشہرہ تواتر سے ڈوب رہا ہے لیکن ان کالا باغ ڈیم مخالفین سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اب حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے مستقل بچا¶ کےلئے ہمیں ڈیم بنانے ہونگے۔ پاکستان کے سپہ سالار نے بالکل درست کہا ہے اور اس سلسلے میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کےلئے بھی سپہ سالار قوم پر احسان عظیم کریں اور تمام سیاسی قوتوں کوچھوٹے بڑے آبی ذخائر کی فوری تعمیر کےلئے ایک ٹیبل پر بٹھاکر نہ صرف قومی اتفاق رائے کا اعلان کرائیں بلکہ ان آبی ذخائر کی ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کے آغاز کے قومی لائحہ عمل کا بھی اعلان کیا جائے۔ یہ بات واضح ہے کہ تربیلا‘ منگلا ڈیم سمیت آبی وسائل سے استفادے کے بڑے بڑے منصوبے فوجی جرنیل مرحوم ایوب خان نے مکمل کئے۔ اسکے بعد جنرل پرویز مشرف نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مہم چلائی اور اب جنرل باجوہ نے اسکے حق میں بیان دیا ہے۔ کئی بار خبروں میں آیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور کئی ممالک پاکستان میں بی اہ ٹی کی بنیاد پر میگا پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں لیکن ہم نے کئی دہائیاں ضائع کیں جس کے اب تک اقتدار میں رہنے والے سب لوگ ذمہ دار ہیں۔
صوبہ سندھ کو ریگستان بنائے جانے کے مبینہ خطرے اور سمندر میں ضرورت سے کم پانی چھوڑے جانے سے ماحولیاتی و آبی وسائل کی تباہی کی وجوہات کی بناءپر سندھی قوم پرست سیاست دانوں نے ہمیشہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی۔ اگر سندھ کو آبی وسائل کی تقسیم میں ناانصافی کی شکایت و خدشات ہیں تو اس کا حل سرد مہری اور خاموشی سے قوم کو بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کی نذر کرنا نہیں بلکہ اس کا حل تو باہمی بات چیت کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے آغاز سے قبل آپ سندھ میں 4 چھوٹے ڈیم تعمیر کردیں جنہیں پہلے پانی سے بھرا جائے تاکہ صوبہ سندھ کی سال بھر کی ضرورت کا وافر پانی سندھ میں موجود ہو۔اگر سندھ کی سال بھر کی ضرورت کا وافر پانی سندھ میں ہی دستیاب ہوگا تو پھر صوبوں کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم پر تنازعات جنم نہیں لیں گے۔سندھ کی تمام چھوٹی بڑی نہروں کو فوری طور پر پختہ کیا جائے۔ اسکے بعد آپ پنجاب و خیبرپختونخواہ میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کردیں ۔
میاں نوازشریف نے 90ءکی دہائی میں کوریا کی شراکت سے لاہور اسلام آباد موٹروے بی اہ ٹی.کی بنیاد پربنائی جس سے ملک کو بہترین شاہراہ ملی۔ 90ءکی دہائی میں بننے والی لاہور اسلام آباد موٹروے کی لاگت آج کے مقابلے میں کئی گنا کم تھی۔ اسی لئے مہنگائی میں ہر گزرتے وقت کےساتھ زبردست اضافے کی وجہ سے ہمیں جتنا جلد ممکن ہو میگا آبی پروجیکٹس کی بی اہ ٹی کی بنیاد پر تعمیر کا آغاز کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں ملک کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اگر اپنا کردار ادا کریں تو ان کا ملک پر ایک اور احسان عظیم ہوگا۔خیبرپختونخواہ اور سندھ کے سیاستدان تو ہر دور میں کالا باغ ڈیم کے مخالف رہے ہیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں۔
مجھے پنجاب کے سیاستدانوں کی منافقانہ سیاست پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ وہ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں کالا باغ ڈیم یاد آجاتا ہے اور پنجاب میں جلسوں سے خطاب میں وہ عوام کی ہمدردی کے حصول کےلئے کالا باغ ڈیم کی حمایت میں بلند بانگ تقریریں کرتے ہیں لیکن سندھ میں آکر یہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں اور اقتدار میں آکر بھی کالا باغ ڈیم کو بھول جاتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں چوہدری برادران سمیت ن لیگ‘ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں موجود لوگ بھی شامل تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی وفاقی کابینہ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی منظوری کا معاملہ رکھا تو کابینہ میں ملک امین اسلم اور ڈاکٹر شیرافگن نے کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کی حمایت کی۔ ان دو افراد کے علاوہ وفاقی کابینہ میں موجود کسی بھی سیاستدان نے کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کی حمایت نہیں کی۔
جنرل پرویز مشرف نے گدو بیراج سے تھرپارکر تک کیلئے رینی کینال کا آغاز کیا تھا لیکن اس کینال کی تعمیر تھرپارکر تک مکمل نہیں ہوپائی تھی کہ انکی حکومت ختم ہوگئی اور یہ منصوبہ ڈیڑھ دہائی گزرنے کے باوجود وہیں پر رکا ہوا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے باہمی تنازعات مل بیٹھ کر حل کریں اور عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کو فوری طور پر آبی میگا پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کیلئے لیکر آئیں اور ہنگامی بنیادوں پر چھوٹے بڑے ڈیموں اور فلڈ کینالز کی تعمیر کا آغاز کریں۔
٭....٭....٭