افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کا حملہ کابل حکومت کےساتھ بے لوث تعاون کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت
بین الاقوامی سرحد کے پار افغانستان کے اندر سے گزشتہ روز دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے پاک فوج کے تین جوانوں کو شہید کر دیا جبکہ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں دہشت گردوں کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردوں نے ضلع کرم کے علاقے خرلاچی میں پاکستانی فوجیوں پر اچانک اندھا دھند فائرنگ کردی۔ سکیورٹی فورسز نے بھرپور جوابی کارروائی کرکے دہشت گردوں کو پسپا کر دیا جبکہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران نائیک محمد رحمان‘ نائیک معاویز خان اور سپاہی عرفان اللہ شہید ہو گئے۔ پاکستان نے اس افسوسناک واقعہ میں دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین استعمال کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور توقع ظاہر کی ہے کہ افغان حکومت مستقبل میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیگی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج دہشت گردی کی لعنت کیخلاف پاکستان کی سرحدوں کے دفاع کیلئے پرعزم ہے اور ہمارے بہادر جوانوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
دوسری جانب سوات بم حملے میں گزشتہ روز امن کمیٹی کے رکن ادریس خان سمیت پانچ افراد شہید ہو گئے۔ پویس کے مطابق یہ بم حملہ کیل کے علاقے برہ بانڈئی کوٹکے میں کیا گیا جس میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق یہ حملہ ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا۔ ڈی پی او سوات زاہد مروت نے اس حملہ میں دو پولیس اہلکاروں کے بھی جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔
ہمارے لئے یہ انتہائی افسوسناک اور المناک صورتحال ہے کہ جس افغانستان کے امن و سلامتی کی خاطر ہم نے گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے 80 ہزار سے زائد شہریوں بشمول سکیورٹی افسران و اہلکاروں کی جانوں کی قربانیاں دیں اور قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا‘ اسکی جانب سے ہمیں قیام پاکستان سے اب تک کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور اسکے برعکس کابل انتظامیہ بھارتی کٹھ پتلی بن کر ہماری سلامتی کمزور کرنے کے اسکے مقاصد ہی پورے کرتی رہی ہے۔ اس کیلئے بالخصوص افغان سربراہوں حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں بھارت کو اپنے دہشت گردوں کی تربیت اور پھر انہیں پاکستان میں داخل کرنے کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ ملتی رہی ہے۔ حامد کرزئی تو نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی بھی ترغیب دیتے رہے جبکہ اشرف غنی نے افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے بنائے بیٹھے دہشت گردوں کے بارے میں اپنے دورہ¿ پاکستان کے موقع پر جی ایچ کیو میں بریفنگ لینے کے بعد بھی ان ٹھکانوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی عملی کردار ادا نہ کیا اور انہوں نے بھی کرزئی کی طرح دہشت گردوں کی سرپرستی جاری رکھی۔ یہی دہشت گرد افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں بھارتی ایماءاور سرپرستی میں بالخصوص ہمارے سکیورٹی اداروں اور اہلکاروں کیخلاف دہشت گردی کا بازار گرم کرتے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی 90 فیصد وارداتوں میں افغانستان سے پاکستان آنیوالے دہشت گردوں کا شریک ہونا ثابت ہو چکا ہے اور یہ سب پاکستان کیخلاف بھارتی عزائم کی تکمیل کیلئے اسکی فنڈنگ اور دوسری سہولت کاری کی بنیاد پر پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ بھارت کے حاضر سروس جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں اپنی گرفتاری کے بعد نہ صرف پاکستان کے اندر بھارتی ”را“ کا دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کا اعتراف کیا بلکہ افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کی کمک ملنے کا بھی اعتراف کیا اور افغانستان سے پاکستان آنیوالے بعض دہشت گردوں کی نشاندہی بھی کی مگر کسی عالمی قیادت اور ادارے نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف ان بھارتی سازشوں کا نوٹس تک نہ لیا جس سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اسکے بھجوائے دہشت گردوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کئے رکھا۔
افغان صدر اشرف غنی کے دور میں تو ڈیورنڈ لائن پر افغان فوجیوں نے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر باقاعدہ حملوں کا سلسلہ شروع کیا اور جب پاکستان نے طورخم سرحد پر حفاظتی گیٹ اور باڑ لگانا شروع کی تو افغانستان کی جانب سے اسکی بھی سخت مزاحمت کی گئی اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اسکے باوجود پاکستان نے اپنے اس برادر پڑوسی ملک کے ساتھ ”مسلم برادرہڈ“ کے جذبے کے تحت سخت اقدام سے گریز کیا اور محض رسمی احتجاج پر ہی اکتفا کیا مگر کابل انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ طوطا چشمی کی انتہاءکر دی اور مکمل طور پر بھارت کی گود میں جا بیٹھی۔ اسکے باوجود پاکستان نے افغان امن عمل کیلئے امریکہ کی معاونت کی اور امریکہ اور طالبان کے مابین امن مذاکرات ممکن بنائے۔ ان مذاکرات کے ذریعے ہی امریکہ اور دوسرے نیٹو ممالک کی باقیماندہ افواج کی بھی افغانستان سے واپسی کا معاہدہ طے ہوا۔ نتیجتاً کابل کے تخت پر طالبان کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی اور گزشتہ سال ستمبر کے آغاز میں ہی امریکی فوجیوں اور سویلینز کی افغانستان سے واپسی کا سلسلہ سرعت کے ساتھ شروع ہوگیا جبکہ افغان فوجیوں نے بھی کابل کی جانب پیش قدمی کرتے طالبان کی مزاحمت سے گریز کیا چنانچہ چند دنوں میں ہی طالبان کی کابل کے اقتدار پر واپسی کا مرحلہ طے ہو گیا۔
اس عمل میں پاکستان کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ امریکہ بھی اسکے امن عمل والے کردار پر بدگمان ہوا جبکہ طالبان قیادتوں نے بھی اقتدار کی منزل حاصل کرنے کے بعد پاکستان سے آنکھیں پھیر لیں۔ اسکے باوجود پاکستان نے افغان امن کی بحالی کیلئے طالبان حکومت کے ساتھ عالمی تعاون کے حصول کی کوششیں جاری رکھیں جس کا افغانستان کی جانب سے ہمیں یہ ”صلہ“ ملا کہ طالبان قیادتوں نے بھی اپنے بیانات کے ذریعے پاکستان کے کردار کو تضحیک کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جبکہ افغان سرحد عبور کرکے پاکستان آنیوالے دہشت گردوں نے پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ بھی تیز کر دیا اور طالبان نے پاکستان کے پرچم کی توہین کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ بھی اکھاڑنا شروع کردی۔ ہمیں تو کابل انتظامیہ کے اس کردار کا ہی فوری اور سخت نوٹس لینا چاہیے تھا مگر ہم پر ”مسلم برادرہڈ“ والا جذبہ غالب رہا جو آج بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کی کارروائیوں کے باجود غالب ہی ہے چنانچہ اپنے اس نرم رویے کا نتیجہ ہم نے گزشتہ روز افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حملے کی صورت میں بھگتا ہے جبکہ سوات حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں بہرصورت اپنے ملک کے تحفظ و دفاع کو ہی اپنی قومی خارجہ پالیسی میں ترجیح دینی ہے۔ افغانستان اور کابل انتظامیہ کی جانب سے اب تک جو ہو چکا سو ہو چکا‘ اب مزید نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے گزشتہ روز کے واقعہ پر کابل انتظامیہ سے محض رسمی احتجاج کے بجائے یہ معاملہ ملک اور خطے کی سلامتی کے تناظر میں اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اٹھنے والے بھارتی اقدامات کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ہاتھ بھی سختی سے روکنے کی پالیسی طے کی جائے بصورت دیگر کابل کی جانب سے بھی ہماری سلامتی و خودمختاری کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔