بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف کی دو کتابیں
برادرم عزیز! بریگیڈیئر محمد یوسف ہمارے عزیز ترین دوستوں میں سے ایک مخلص دوست ہیں۔ وہ چکوال میں پیدا ہوئے۔ 1967ءمیں بی ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کر کے ملٹری اکیڈمی کاکول میں داخل ہو گئے۔ اسی طرح افواجِ پاکستان کے مختلف عہدوں پر تعینات رہے۔ اور 1991ءسے 1996ءتک ایم آئی کے سربراہ بھی رہے۔ 1997ءمیں فوج سے استعفیٰ دینے کے بعد منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے ایم ڈی رہے۔ پھر ملکی، قومی جذبے کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا۔ 3 سال تک ملت پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔ کچھ عرصہ روزنامہ’ نوائے وقت‘ میں میرا پاکستان کے نام سے خوبصورت کالم بھی لکھتے رہے۔ اسکے بعد انہوں نے اپنی بائیو گرافی بھی شروع کی اور اللہ کرے کہ وہ جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ ان کی بائیو گرافی بھی سربستہ رازوں کا مجموعہ ہوگی۔ پاکستان کے معروف شاعر، ڈرامہ نگار، نثر نگار، جناب امجد اسلام امجد ان کی دوسری کتاب ”سرشر غم گساراں“ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”میری اطلاع کے مطابق برادرم بریگیڈیئر محمد یوسف اُس زمانے سے شاعری کر رہے ہیں جب انہوں نے علم کی وردی پہننا شروع کی۔ اور پھر فوجی وردی پہن کر شاعری کرتے رہے۔ انہوں نے شاعری کے ذریعے واقعہ ہی ادب میں ایک خوبصورت اضافہ کیا ہے۔ بریگیڈیئر یوسف فوجی رینک کے اعتبار سے شاید جنرل کے ایم عارف کے بعد سب سے سینئر شاعر ہیں۔ مگر میدانِ سخن میں درجہ بندی کا اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ بعض اوقات فور سٹار جنرل کو بھی کسی نائب صوبیدار کو سلیوٹ مارنا پڑتا ہے۔ اس مجموعے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ غزل کے موضوعات کی بے پناہ وسعت اور رنگا رنگی کے باوجود اس میں شامل غزلیں شاعری کے فکر کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ زبان ،فن شعر اور تغزل کے حوالے سے بعض مقامات مزید توجہ کے متقاضی ضرور ہیں۔ شاعری انکی اس قدر دلچسپ ہے کہ ایک ہی نشست میں ان کا پورا دیوان پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ کلاسیکی اور ہم عصر شاعری کے مزید اور مسلسل مطالعہ سے بریگیڈیئر محمد یوسف بہت جلد اردو غزل کی کافر ادا حسینہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ انکی شاعری کی مہک دور تک سفر کرتی نظر آ رہی ہے۔ ممتاز شاعر اور ادیب افتخار عارف (ستارہ امتیاز، ہلالِ امتیاز) بریگیڈیئر یوسف کی کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”مجھے معلوم نہیں کہ بریگیڈیئر صاحب نوجوانی سے شعر کہتے آئے ہیں یا ریٹائرمنٹ کی زندگی کے بعد شاعری کی طرف رجوع کیا۔ مگر انکی شاعری بتاتی ہے کہ شاعر پختہ اور اعلیٰ ذوق کا نمائندہ ہے۔ زبان و بیان کے قرینوں سے بھی واقف ہے۔ فن شعر پر بھی کماحقہ‘ دسترس رکھتا ہے۔ غزلیں، نظمیں بھی اعلیٰ انداز سے تخلیق کیں۔ اپنے چاروں طرف ہلکی سانس لیتی بکھرتی زندگی کا بیان ہو یا دل کا احوال دونوں اخلاص اور سادگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ کتاب انکی کیا ہے شاعری کا بے مثال شہر ہے۔میں برادرم بریگیڈیئر یوسف کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں“۔ احمد ندیم قاسمی اُردو ادب کے سدا بہار قطب ستارہ ہیں۔ ان کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے بریگیڈیئر یوسف کی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”یہ کتاب امن ،پیار اور دوستی کی ترجمان ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے انتہائی خلوص کے ساتھ اور مکمل پاکستانی کی حیثیت سے شاعری کی کتاب شاعرانہ انداز میں لکھی ہے۔ ان کا جذبہ، خلوصِ نیت کوئی نہیں ٹھکرا سکتا۔ انکی شاعری میں تلخی کا احساس بھی ہوتا ہے اور محبت کی داستان بھی نظر آتی ہے۔ یہ شاعری کم اور امن کا دریا زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے اس انداز سے شاعری کی ہے کہ ان کا مقام سینئر اساتذہ کرام میں شامل ہو گیا ہے۔ ہم سفر وہ نہیں رہا یوسف … رستے اب کہیں بھی لے جائینگے۔ ان کی دوسری کتاب ”سالٹ رینج کے سائے“ (طنز و مزاح) افواجِ پاکستان نے بڑے بڑے ادیب اور شاعر پیدا کیے جو افواجِ پاکستان کے خوبصورت چہروں میں ایک خوبصورت اضافہ بھی ہے۔ سیّدضمیر جعفری، کرنل محمدخان، صحرائی گورداسپوری، عنایت اللہ، باقی صدیقی، سراج ظفر، ن م راشد جیسے بڑے بڑے نام پیدا کیے مگر طنز و مزاح میں بریگیڈیئر یوسف صاحب نے بھی یہ کتاب لکھ کر پاکستانی معاشرے کو خوبصورت طنز و مزاح کی صورت میں گلدستہ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب خوبصورت مزاح کی کتاب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”1991ء میں انکی پہلی کتاب ”آہٹ“ شائع ہوئی۔ تو حلقہ احباب میں ایک شور سا مچ گیا۔ اسکے بعد ”صدائے دل“ کے نام سے دوسرا مجموعہ آ گیا۔ اسکے بعد ان کا ادبی شعری سفر جاری رہا۔ 1991ءمیں ملٹری انٹیلی جنس پنجاب کے سربراہ کی حیثیت سے لاہور آ گئے۔ اس زمانے میں یوں سمجھیں کہ پوری حکومت انکے اردگرد گھومتی تھی اور لکھنا پڑھنا تقریباً ختم ہو گیا۔ وہ لکھتے ہیںکہ میری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں وہ طالب علم جو غر بت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتا میں اسکے تعلیمی اخراجات برداشت کروں اور پاکستان کو بانی ¿ پاکستان کا سو فیصد پڑھا لکھا پاکستان بنا دوں۔ میں نے اپنی زندگی پاکستان کیلئے وقف کی تھی اور وقف ہے لیکن میں نے سیاست میں بھی چند سال گزارے لیکن سیاست میں گھن سی آتی ہے۔ سیاست میں کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس کو ہم یا پوری قوم رول ماڈل کہہ سکے۔ البتہ عمران خان پوری قوم کی آخری اُمید ہے۔ مگر سیاست ایسی ہے کہ گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔ سنا ہے خاندانی طوائفوں میں بھی کچھ اصول ہوتے ہیں مگر ہمارے سیاستدانوں کا کوئی اصول نہیں ہے۔ کتاب میں مزاح کے انداز میں پاکستان کے 75 سالوں میں جو مسائل پیدا ہوئے اور ان کا حل بیان کیا گیا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب کی کتاب کے ناشر برادرم عزیز علامہ عبدالستار عاصم نے کہا ہے کہ پاکستان میں کتاب کلچر شدید مہنگائی میں دم توڑ رہا ہے۔ حکمرانوں کا خیال ہے کہ کاغذ پر صرف نوٹ ہی چھپتے ہیں۔ بقول حسن نثار کے ظالمو! کاغذ پر کتابیں بھی چھپتی ہیں۔ کتابوں پر سو فیصد ٹیکس ختم کیا جائے اور کتاب انڈسٹری کو پانچ سال کیلئے ڈیوٹی فری قرار دےدیا جائے تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے آگے نکل سکتا ہے۔
٭....٭....٭