جمعرات ، 18 صفرالمظفر1444ھ،15 ستمبر 2022 ء
امن و امان کی ابتر صورتحال‘ گومل یونیورسٹی غیرمعینہ مدت کیلئے بند
اب اگر امن و امان سے مراد سابق وفاقی وزیرعلی امین گنڈاپور کی وائس چانسلر گومل یونیورسٹی کے ساتھ کھلی جنگ ہے تو پھر واقعی حالت بہت خراب ہے۔ ایک سابق وزیر میڈیا پر آ کر کھلم کھلا وائس چانسلر کو تڑیاں لگاتا ہے۔ اپنی مرضی ٹھونسنا چاہتا ہے اور ذرا بھر بھی پریشان نہیں، پشیمان ہونا تو دور کی بات ہے۔ اس کے جواب میں وائس چانسلر کی طرف سے طلبہ کے مطالبات پر پہلے بات چیت پھر معنی خیز انداز میں خاموشی کے ساتھ یونیورسٹی بند کرنے کے اعلان نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ گزشتہ دو سال سے جتنا تعلیمی نقصان ہو چکا ہے‘ اس کے بعد تو اب ہم تعلیمی دورانیے میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کر سکتے۔ پہلے ہی طلبا کا قیمتی وقت برباد ہو چکا ہے۔ اب خدا جانے سیاسی یا انتظامی چپقلش کا نزلہ گومل یونیورسٹی پر کیوں گر رہا ہے۔ اب ایک طرف بااثر سیاستدان ہے اور دوسری طرف یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘ دیکھنا ہے کس کا پلہ بھاری پڑتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے تعلیمی اداروں کو بھی اپنی سیاست میں گھسیٹنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا‘ سب جانتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو سیاست اور سیاسی سرگرمیوں سے پاک رکھنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ مگر تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے سٹوڈنٹس ونگ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بل بوتے پر وہ تعلیمی اداروں میں اثر و رسوخ قائم کرکے اپنی سٹریٹ پاور بڑھاتے ہیں اور طلبہ ان سیاستدانوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ تعلیمی اداروں میں غیر سیاسی بنیادوں پر ہی سہی طلبہ تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے جنہیں وہاں کے طلبہ بذریعہ سالانہ الیکشن منتخب کریں۔
٭٭……٭٭
ملکہ الزبتھ کیلئے عمرہ ادا کرنے والا یمنی باشندہ گرفتار
ایسا نہ کبھی سنا تھا نہ کبھی پہلے ہوا تھا۔خدا جانے یہ لوگ ایسی احمقانہ حرکت کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ شخص جو اب گرفتار ہوا ہے‘ سعودی عرب عمرہ ادا کرنے آیا۔ یہاں آکر نجانے کیوں اس کے اندر یہ شیطانی سوچ بیدار ہوئی اور اس نے عمرہ ادا کرنے کے بعد ایک بینر اٹھا کر یہ ویڈیو بنائی اور وائرل کی کہ اس نے یہ عمرہ ملکہ برطانیہ کے ایصال ثواب کیلئے ادا کیا ہے۔ خدا انہیں بہشت میں جگہ دے۔ ان کی روح کو سکون ملے۔ اول تو کسی غیر مسلم کیلئے ایسی دعا کرنا جائز ہی نہیں‘ اگر اس کم بخت کو ملکہ برطانیہ سے اتنی ہی محبت اور عقیدت تھی تو سیدھا ٹکٹ کٹوا کر برطانیہ چلا جاتا اور ملکہ برطانیہ کی آخری رسومات میں شرکت کرکے ان سے اپنی محبت و عقیدت کا ثبوت دیتا۔ یہاں مکہ شریف میں آکر یہ ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی جس سے کروڑوں مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی۔ اس کے نتیجے میں اب موصوف گرفتار ہوچکے ہیں۔ حوالات کی ہوا کھا رہے ہیں۔ کیا یمن میں گرجے نہیں ہیں؟ بہتر ہوتا یہ وہاں جا کر ملکہ کیلئے دعا کرتے۔ خصوصی عبادت میں شریک ہوتے۔ مگر لگتا ہے اس طرح انہیں امید تھی کہ وہ حکومت برطانیہ کی نظر میں آ جائیں گے اور وہ اسے برطانیہ بلا کر شاباش دیگی۔ ہو سکتا ہے رہنے کی اجازت بھی مل جائے مگر اس کے اس احمقانہ اقدام کے بعد اسکی خوب لعن طعن ہو رہی ہے ۔اگر اسے بہت زیادہ دکھ تھا تو ملکہ کو اچھے الفاظ میں یاد کرتا ان کی خدمات گنوانے کیلئے کسی تقریب کا اہتمام کرتا‘ یہ عمرہ کی کیا سوجھی اسے‘ خدا ایسے احمقوں سے محفوظ رکھے۔
٭٭……٭٭
غیرقانونی طورپر کراچی میں مقیم درجنوں افغان باشندے گرفتار
یہ درجنوں کیا بلا ہے۔ اگر سندھ پولیس اور حکومت آنکھیں کھول کر کارروائی کرے تو اس وقت بلا مبالغہ غیر قانونی طورپر پاکستان داخل ہونے والے کراچی میں افغان باشندے ہزاروں چین کی بانسری بجاتے ملیںگے۔ جو یہاں ہر قسم کے جرائم ‘ منشیات و اسلحہ کی خریدوفروخت‘ اغوا برائے تاوان ، چوری ڈکیتی کی وارداتوں اور سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ بزرگ شہری‘ عورتیں اور بچے تو اتنا سفر طے کرکے چمن یا طورخم سے کراچی آنے سے رہے۔ اس لئے حکومت سندھ اور پولیس کو کومبنگ آپریشن کرکے ان غیرقانونی طورپر خون چوسنے والی جونکوں کو کراچی سے نکالنا ہوگا۔ اس وقت پورے ملک کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں غیرقانونی طورپر پاکستان آنے والے لاکھوں مہاجرین موجود ہیں۔ کاروبار کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود دل سے وہ پاکستان کا احسان تسلیم کرنے کی بجائے اسے برابھلا کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو لوٹنا‘ قتل کرنا ان کے نزدیک کوئی گناہ نہیں۔ وہ یہاں اپنی جان بھی بچاتے ہیں اور مال بھی کماتے ہیں۔ ایسے افغان بھگوڑوں کو نکالنا بہت ضروری ہے۔ جو افغان روسی جارحیت کے بعد آئے‘ وہ مہاجر کہلانے کے حقدار ہیں۔ ان کی ایک نئی نسل یہاں پیدا ہوکر پروان چڑھی ہے۔ باقی جو لوگ چوری چھپے غیرقانونی طورپر یہاں آئے ہیں‘ انہیں مہاجر نہیں کہا جا سکتا۔ ہر شہر میں انہوں نے اپنی غیرقانونی کالونیاںکچی آبادیاں قائم کر رکھی ہیں۔ اب افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہے‘ اس لئے انہیں یہاں سے نکال کر واپس ان کے آبائی وطن روانہ کیا جائے تاکہ پاکستان پر بوجھ کم ہو۔
٭٭……٭٭
سورج پیلا نہیں سفید ہے: سابق خلا باز ناسا
سورج سفید ہو یا پیلا‘ سرخ یا گلابی‘ اس سے کسی کو کیا لینا دینا۔ ہمارے ہاں بھی سورج کو صرف نعروں میں یاد کیا جاتا ہے۔ مثلاً
جب تک سورج چاند رہے گا
فلانے تیرے نام رہے گا
یا پھر اگر خراب ہو تو سورج کی تپش سے زمین کے جھلسنے یا سورج کے آنکھیں دکھانے کا ذکر ہوتا ہے۔ شاعری میں البتہ خورشید کے طلوع ہونے پر بقول غالب:
صبح آیا جانب مشرق نظر
ان نگار آتشیں رخ سر کھلا ہوا
کہہ کر محبوب کے بہانے سورج کی تعریف ہوتی ہے۔ ورنہ وہی جاڑوں کی ٹھنڈی دھوپ یا گرمیوں میں آگ برساتا سورج ہی ہمارے ہاں مشہور ہے۔ اب یہ کوئی چاند کا ذکر تو نہیں ہے کہ کوئی ؎
’’چندا توری چاندی میں جیا جلا جائے رے‘‘
کہہ کر دل کے پھپھولے پھوڑے۔ سائنسدانوں کے مطابق کرۂ ارص پر پھیلی آلودگی اور گیسوں کی وجہ سے سورج ہمیں پیلا نظر آتا ہے۔ اگر ہم اپنے سیارے یعنی زمین کی ماحولیاتی تہہ سے باہر نکل آئیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ سورج کا رنگ بھی سفید ہے۔ یہ بات ہے تو پھر ہمیں جو سورج کبھی لال‘ کبھی پیلا نظر آتا ہے‘ ہمارا بصری دھوکا ہے۔ کون کون ہے جو ہمیں دھوکا نہیں دے رہا۔ اب سیارے اور ستارے بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں بقول شاعر؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا