ایون فیلڈ ریفرنس ، مرکزی ملزم اشتہاری ، کیس مریم ، کپٹن صفدر کی حد تک دیکھنا ہے : اسلام آبد ہا ئیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مریم نواز اور کپٹن صفدر کی اپیلوں میں مریم نواز کے وکیل کا جانب سے دلائل مکمل جبکہ نیب کی جانب سے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی گئی۔ وکیل امجد پرویز نے کہاکہ میں نے عدالتی معاونت کیلئے پیپر بکس تیار کی ہیں،نیب کے شواہد میں واحد چیز رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ تھی،میں نے رابرٹ ریڈلے سے متعلق ہی دو صفحات تیار کئے ہیں، ایک ایکسپرٹ کی رائے کو اس کیس میں بنیادی شواہد کے طور پر لیا گیا،ایکسپرٹ کی رائے کبھی بھی بنیادی شہادت نہیں ہوتی،محض ایک ایکسپرٹ کی رائے پر سزا سنا دینا محفوظ نہیں ہوتا،رابرٹ کلپ اس ٹرسٹ ڈیڈ کے واحد گواہ ہے،عدالت نے استفسار کیاکہ ٹرسٹ آف پراسیکیوشن کے شواہد کیا ہے ؟،جس پر وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کے جعلی دستاویزات پائے، ایک لائن لکھا گیا،کہا گیا کہ جس دن یہ دستاویزات پر دستخط ہوئے اس دن کیلبری فونٹ نہیں تھی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ اگر ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹرڈ ہوتی تب تو بہت سارے شواہد واضح ہونے تھے،وکیل نے کہاکہ کردار کشی کے لیے کمپئین چلائی گئی،پانچ جنوری 2017 کا لیٹر ہے جس میں سولیسٹر نے حسین نواز کے دستخط کی گواہی دی،ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کرنے والے کسی شخص نے دستخط نہ کرنے کا نہیں کہا،جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ آپ تو اس ڈاکومنٹ کو تسلیم کرتے ہیں،ہم اس معاملے کو کیلبری فونٹ کے معاملے سے دیکھیں گے،وکیل نے کہاکہ یہ الزام غلط ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ تیاری کے وقت کیلبری فونٹ دستیاب نہیں تھا،جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیاکہ آپ اس ڈاکومنٹ اور اس کے متن کو تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہاکہ جی بالکل، ہم اس ڈاکومنٹ کو مکمل تسلیم کرتے ہیں،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ پراسیکیوشن کا اس متعلق کیا کہنا ہے؟ وکیل نے کہاکہ پراسیکیوشن کہتی ہے کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ پر درج تاریخ غلط ہے،وہ کہتے ہیں کہ اس تاریخ پر کیلبری فونٹ دستیاب ہی نہیں تھا، پراسیکیوشن کہتی ہے کہ کیلبری فونٹ اس تاریخ پر نہیں تھا جب یہ معاہدہ ہوا، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ اس کیس میں کوئی ابتدائی شواہد آئے ہیں، سیکنڈری دستاویزات کے علاوہ؟ وکیل نے کہا ریڈلے بھی اعتراف بھی کر چکا کہ وہ فونٹ ایکسپرٹ بھی نہیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ پھر تو سارا ثبوت ہی ختم ہو گیا،اس کیس میں رابرٹ ریڈلے کی رپورٹس برائے نام ہے،عدالت نے کہاکہ کیلبری فونٹ کے علاوہ جتنے بھی فونٹ اگر بن جاتے ہیں تو کوئی رجسٹریشن ہوتی ہے ؟،جس پر وکیل نے کہاکہ ہم نے پوچھا تھا کہ کیلبری فونٹ کب ڈیزائن ہوئی اور کیا ایوارڈ ملا،عدالت نے کہاکہ آپ کو اگر پتہ تھا کہ یہ فونٹ کیس سے پہلے رجسٹرڈ تھا تو دستاویزات کیوں نہیں دیے،وکیل نے کہاکہ ایکسپرٹ خود کہہ رہا ہے کہ یہ فونٹ 2005ء میں ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کر چکا ہوں،گواہ سے پوچھا کہ آپ آئی ٹی، کمپیوٹر فونٹ یا کس چیز کے آپ ماہر ہے، انہوں نے کہا میں نہ آئی ٹی، نہ ہی کمپیوٹر اور نہ ہی فونٹ کا ایکسپرٹ ہو،عدالت نے کہاکہ اگر ان دستاویزات سے کیلبری فونٹ کو نکال دیں تو دستاویزات تو آپ مان رہے ہیں،وکیل نے کہاکہ کیلبری فونٹ کو اگر نکال دیں کیس رہتا ہی کوئی نہیں،اس ٹرسٹ ڈیڈ کی بنیاد پر اس خاتون نے فائدہ کیا لیا؟ کچھ بھی نہیں، کسی کا اثاثہ کبھی بھی نہیں چھپ سکتا،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ جو بھی فونٹ بنتا ہے وہ کہیں رجسٹر ہو تو ہوتا ہو گا ، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ کیا کیلبری کے رجسٹر ہونے سے متعلق کوئی چیزریکارڈ پر آئی کب ہوا؟ جس پر وکیل نے کہاکہ یہ ریکارڈ پر لانا نیب کی ذمہ داری تھی ہماری نہیں،جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ ٹرسٹ ڈیڈ درست ہے تو اس کا اثر کیا پڑتا ہے ؟ جس پر وکیل نے کہاکہ کوئی اثر نہیں پڑتا اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا،پراپرٹی اسی فیملی کی تھی اسی میں رہنی تھی ابھی تک اسی کو بھگت رہے ہیں،مریم نواز نہ کبھی وہاں رہیں نہ ہی کبھی انہیں کوئی کرایہ آیا، پراسیکیوشن مریم نواز کو بینیفشل مالک کہہ رہی ہے، دستاویزات 2006 کی ہیں جبکہ یہ معاملہ 1993 کا ہے، عدالت نے استفسار کیاکہ ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل دستاویزات کہاں ہیں؟،جس پر وکیل نے کہاکہ ٹرسٹ ڈیڈ کے اصلی دستاویزات کو کبھی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا،عدالت نے کہاکہ انہوں نے کہیں کوئی اجازت لی کہ سیکنڈری دستاویزات جمع کرانی ہے؟، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ اگر دستاویزات ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں تو پھر کیسے ؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ آپ تو ٹرسٹ ڈیڈ مان رہے ہیں جسکی وجہ سے آپ یہاں کھڑے ہیں، جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ اگر آپکی ایڈمیشن بھی ہے تب بھی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ ہونا چاہیے، اس وقت کیس میں تھوڑا فرق ہے،مرکزی ملزم کیس میں اشتہاری قرار پا چکے ان کا کیس الگ ہے،ہم نے اب صرف مریم نواز کیپٹن ر صفدر کی حد تک کیس دیکھنا ہے،امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ قتل میں معاونت الگ جرم جبکہ قتل کے بعد لاش کو ٹھکانے لگانا الگ جرم ہے،عدالت نے کہاکہ ہمارے ہاں حالات میں فرق ہے، مرکزی ملزم اور بنیفشری کا معاملہ تقریباً ایک ہے،جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ یہ معاملہ اعانت کا ہے اور ابھی تو ہم نے اس کیس میں اعانت کو ثابت کرنا ہے، وکیل نے کہاکہ ابھی ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ کیس پرانے نیب قانون کے مطابق دیکھنا ہے یا نئے نیب قانون کے مطابق،وکیل نے کہاکہ اس کیس پر نیب کا پرانا قانون لگائیں یا نیا بنتی بریت ہی ہے،آمدن کے جائز ذرائع آج تک کسی رپورٹ، ریفرنس، فرد جرم یا ججمنٹ میں نہیں بتائے گئے، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا بھی آج تک تعین نہیں کیا گیا،اثاثے کی مالیت اور آمدن کے ذرائع کو ڈسکس کرنا ضروری ہے ورنہ ملزم پر ثبوت کا بوجھ نہیں آئے گا،جب جرم ہی نہیں ہوا تو اعانت کیسے کی گئی،پی ٹی آئی حکومت کے نیب آرڈیننس میں بھی حالات واضح کئے گئے تھے، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ پچھلے پانچ سالوں سے ایگزیکٹو نے کام کرنا چھوڑ دیا،اگر ایک ایگزیکٹو دن میں پندرہ فیصلے کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی غلط بھی ہونگے،عدالت نے کہاکہ اب نیب کے اس قانون کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیا گیا کیونکہ کیسسز بنتے گئے، ڈپٹی پراسیکوٹر سردار مظفر عباسی نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ ہمارا ایک ممبر نہیں تو وقت دیا جائے، عدالت نے استفسار کیاکہ آپ کو دلائل دینے کے لئے کتنا وقت لگے گا؟،جس پر سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایاکہ ہم نے شواہد پر بحث کرنی ہے تو کوشش کریں گے کہ کم سے کم وقت میں دلائل دیں گے،عدالت نے سماعت 20ستمبر تک کے لئے ملتوی کردی۔