بیگم کلثوم نواز سے وابستہ کچھ یادیں
سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز کے ساتھ میری کچھ زیادہ یاد اللہ نہیں، بس ایک دو تلخ اور چند خوشگوار یادیں ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ /11 ستمبر کو ان کی چوتھی برسی گزری ہے تو ان کے ساتھ وابستہ یادوں کے حوالے سے ان کے اوصاف بھی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے، میں نے جنرل مشرف کے ہاتھوں میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد بیگم کلثوم نواز کو بحالی ٔجمہوریت کی جانگسل تحریک کا آغاز کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جب ان کی زیر قیادت ماڈل ٹائون لاہور سے شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران شادمان چوک میں پولیس نے ان کی گاڑی کو لفٹر سے اُٹھایا اور بیگم کلثوم نواز لفٹر کے ساتھ لٹکتی ہوئی اس گاڑی میں تقریباً آٹھ گھنٹے تک استقامت کے ساتھ بیٹھی رہیں تو میں نے اسی وقت ان کے حوالے سے یہ رائے قائم کر لی تھی کہ انہیں عملی سیاست میں قدم جمانے کا موقع ملے تو وہ ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کے لیے میاں نواز شریف سے بہتر سیاسی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ آج وہ اس دنیا میں موجود نہیں مگر ان کی چوتھی برسی کے موقع پر بھی میں اپنی اس رائے پر قائم ہوں۔
بیگم کلثوم نواز لاہور کے قدیمی نامی گرامی پہلوان بھولو برادران کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں جن کا بطور خاص مذہبی روایات کے ساتھ بندھن مضبوط تھا۔ میاں نواز شریف کا تو جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے دوران 1981ء میں سیاسی اقتدار کا سفر شروع ہو گیا تھا جب انہوں نے اپنی پارٹی تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خاں کی منشاء کے برعکس گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خاں کی کابینہ میں بطور وزیر خزانہ شمولیت اختیار کی مگر بیگم کلثوم نواز کسی وزیر کی اہلیہ والی بود و باش اختیار کرنے کے بجائے خالصتاً گھریلو ذمہ داریاں ہی نبھاتی رہیں۔ مجھے آج بھی میاں نواز شریف کا وہ طرز عمل یاد ہے جب ان کی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور میں ایک قومی اخبار نے بیگم کلثوم نواز کی خوبصورت رنگین تصویر بطور ’’سکوپ‘‘ صفحۂ اول پر شائع کی تو میاں نواز شریف کی جانب سے اس اخبار کو قانونی نوٹس جاری کر دیا گیا مگر ان کی اس تصویر نے ان کی سیاسی زندگی کا راستہ بھی ہموار کیا۔ مجھے ان کے خاندانی معاملات پر کوئی بات کرنے کی قعطاً ضرورت نہیں اور میں میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں شریف فیملی کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں بات کر کے کچھ نہ کچھ بھگت بھی چکا ہوں جس کا تذکرہ میں اگلی سطور میں کروں گا۔ اس وقت میں بیگم کلثوم نواز کی سیاسی بصیرت پر بات کرنے پر ہی خود کو محدود رکھوں گا۔ بے شک وہ میاں نواز شریف کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اور بطور وزیر اعظم پاکستان اقتدار کے دوران محض خاتون خانہ کا کردار ہی ادا کرتی رہیں تاہم میری باوثوق اطلاعات کے مطابق وہ حکومتی ، سیاسی امور کی انجام دہی کے معاملہ میں میاں نواز شریف کو گائیڈ کیا کرتی تھیں اور میاں نواز شریف کی بعض تقاریر کی خالق بھی بیگم کلثوم نواز ہی تھیں۔
جولائی 1993ء میں جب میاں نواز شریف صدر غلام اسحاق خاں کے دفعہ 58 (2) بی والے صوابدیدی آئینی اختیارات استعمال ہونے پر اپنی وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے تو انہوں نے صدر مملکت کے اس اقدام کو سب سے پہلے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ اس وقت چودھری محمد فاروق ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان تھے جبکہ معروف آئینی ماہر اے کے ڈوگر نے اس کیس میں درخواست گزار کی وکالت کی ذمہ داری سنبھالی۔ کیس کی سماعت کے پہلے روز بیگم کلثوم نواز ، ان کی صاحبزادیوں مریم اور اسما اور میاں شہباز شریف کے صاحبزادوں سمیت شریف خاندان کا جم غفیر کمرۂ عدالت میں موجود تھا اور یقیناً اقتدار سے فراغت کے بعد شریف فیملی کا گھر سے باہر نکل کر عدالتوں اور عوام میں آنے کا بھی یہ پہلا واقعہ تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران جب وقفہ ہوا تو اخبار نویسوں نے بیگم کلثوم نواز کو گھیر لیا جنہوں نے چُھوٹتے ہی اخبار نویسوں کو رگیدنا شروع کر دیا اور میاں نواز شریف کی جانب سے انہیں نوازے جانے کا الزام عائد کیا اور فتویٰ صادر کیا کہ ان کرپٹ صحافیوں کی وجہ سے ہی میاں نواز شریف کے اقتدار کے خاتمہ کی نوبت آئی ہے۔ میں اس وقت بیگم کلثوم نواز کے بالکل سامنے کھڑا تھا چنانچہ میں نے ان کا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ان کی بات اچک لی اور بلند آواز کے ساتھ انہیں مخاطب کیا کہ جو صحافی میاں نواز شریف کے ہاتھوں فیضیاب ہوتے رہے ہیں، آپ ان کے نام بتائیں اور پوری صحافی برادری کو موردالزام نہ ٹھہرائیں۔ میرے اس تقاضے پر دوسرے صحافیوں نے بھی بیگم کلثوم نواز پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی، یقینا اخبار نویسوں کا سامنا کرنے کا یہ ان کا پہلا تجربہ تھا جسے وہ سنبھال نہ پائیں اور انہوں نے اپنے وکلاء اور فیملی ممبرز کے ساتھ کمرۂ عدالت سے باہر جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔ بی بی سی نے اسی روز بیگم کلثوم نواز کے حوالے سے اپنا خبرنامہ گرما دیا جبکہ اگلے روز قومی اخبارات میں بھی اس خبر کی شہ سرخی لگی اور ایک اخبار نے تو بیگم کلثوم نواز کا انٹرویو بھی شائع کر دیا جس میں انہوں نے میرے حوالے سے تلخ لب و لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ میں ان سے پوچھنا چاہتی تھی کہ آپ نے میاں نواز شریف سے کیا کیا فائدے اٹھائے ہیں مگر شور شرابے میں مجھے اس کا موقع ہی نہ مل سکا۔ میں نے اس پر جسٹس خلیل رمدے صاحب کے برادر بزرگ چودھری محمد فاروق سے، جو میرے اچھے دوست بھی تھے،بیگم کلثوم نواز کے اس انٹرویو کے بارے میں بات کی اور کہا کہ وہ میرے حوالے سے کی گئی اس بات کی وضاحت کریں، چنانچہ اگلے روز چودھری محمد فاروق نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد کاظم خاں کے کمرے میں ان کی موجودگی میں بیگم کلثوم نواز کے ساتھ میری ملاقات کا اہتمام کیا ۔ وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو مجھ پر نگاہ پڑتے ہی مخاطب ہوئیں، ’’آپ سے تو مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ آپ اتنے بے باک صحافی ہیں‘‘ اس پر چودھری محمد فاروق اور کاظم خاں صاحب دونوں نے میرے اور میرے صحافتی کیرئیر کے حوالے سے بیگم کلثوم نواز کو بریف کیا اور بتایا کہ یہ کسی سے نوازے جانے والے صحافیوں کی قبیل میں ہرگز شامل نہیں۔ بیگم کلثوم نواز نے اس پر تحمل سے جواب دیا کہ مجھے ان کے بارے میں کچھ بھی معلومات حاصل نہیں تھیں تاہم انہوں نے کمرۂ عدالت میں میرے ساتھ جس لب و لہجہ میں بات کی اس پر مجھے غصہ آیا اور میں نے خاتون صحافی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں ان کے حوالے سے تلخ بات کر دی۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ ضرور برآمد ہوا کہ میرے حوالے سے بیگم کلثوم نواز کا دل صاف ہو گیا اور انہوں نے اٹھتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ میرا آپ کے ساتھ احترام کا رشتہ برقرار رہے گا۔ اس کے بعد میرا بیگم کلثوم نواز سے کبھی کوئی رابطہ یا ملاقات نہیں ہوئی۔
میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں جب میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، مجھے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے مابین اختیارات کی کش مکش میں شروع ہونے والے اختلافات کی بھنک پڑی تو میں نے ’’شرارتی عناصر‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں اس کا ذکر کر دیا۔ اگلے روز محترم مجید نظامی نے مجھے طلب کیا اور پہلے مجھ سے شعبۂ رپورٹنگ کی کارکردگی کے بارے میں استفسار کرتے رہے۔ پھر اچانک انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف آپ کے کالم کی اشاعت پر ادارے سے بہت خفا ہیں۔ انہوں نے مجھے آپ کو ادارے سے نکالنے کا کہا ہے مگر میں نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ آپ مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں۔ ان کا کالم شائع کرنے کی میری ذمہ داری ہے۔ آپ نے کوئی ایکشن لینا ہے تو میرے خلاف لیں، محترم مجید نظامی نے میرے ساتھ کسی قسم کی خفگی کے اظہار کے بجائے یہ کہہ کر مجھے تھپکی دی کہ آپ اطمینان سے اپنا کام جاری رکھیں تاہم میرے دوستوں کے ساتھ ’’ہتّھ ہولا‘‘ رکھ لیا کریں۔ اس کے اگلے روز شریف برادران بالخصوص میاں شہباز شریف کی جانب سے میرے ساتھ خفگی والا پیغام اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب شعیب بن عزیز نے بھی مجھ تک پہنچایا اور اسی روز مجھے وزیر اعظم ہائوس کے سرکاری فون نمبر سے مجھے کال آئی۔ براہ راست بیگم کلثوم نواز مجھ سے مخاطب تھیں۔ کہنے لگیں کہ آپ کا کالم پڑھ کر میاں صاحب کا موڈ بہت خراب ہوا تھا۔ میں نے انہیں آپ کے بارے میں بریف کر کے مطمئن کر دیا ہے۔ ان کی اس بات پر لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر کے کمرے میں ان کی زبان سے ادا ہونے والے یہ الفاظ میرے ذہن میں گونجنے لگے کہ میرا آپ کے ساتھ احترام کا رشتہ برقرار رہے گا۔ بے شک میرا ان کے ساتھ کبھی رابطہ نہ رہا مگر ان کی ٹیلی فون کال نے میرے دل میں ان کی قدر و منزلت اوربھی بڑھا دی، وہ بلاشبہ ایک نفیس اور رکھ رکھائو والی خاتون تھیں اور رشتے نبھانا جانتی تھیں، ان کا کردار عملی سیاست میں برقرار رہتا تو میرا گمان ہے کہ میاں نواز شریف پر ان کے دوسرے دور اقتدار میں ٹوٹنے والی افتاد کی شائد نوبت نہ آتی۔ عمران خاں کی اپوزیشن سیاست اور پھر ان کے دورِ اقتدار میں بیگم کلثوم نواز کی موت کی تضحیک میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی جو سیاست کی سفاکی کی بدترین مثال ہے۔ خدا ایسی سیاست کرنے والوں کو راہ ہدائت دے۔ بیگم کلثوم نواز سیاست میں ہوتیں تو رواداری اور شائستگی والی سیاست ان کے نام کے ساتھ منسوب رہتی۔
خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را
٭…٭…٭