• news
  • image

پاکستانی معیشت اور فیصلہ سازی

پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے والے سرکاری ادارے وفاقی ادارہ شماریات نے ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں 9اشاریہ 4فیصد کا اعلان کیا تھا جو اگست کے مہینے میں 8اشاریہ 2فیصد تھی۔پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی ستمبر کے آخر میں اپنی زرعی پالیسی میں غذائی اجناس کی رسد میں رکاوٹوں کی وجہ سے مہنگائی کے بڑھنے کے بارے میں اشارہ کیا تھا۔پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ’’فوڈ انفلیشن‘‘ یعنی غذائی اشیا ء کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ پاکستان میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جائے تو مقامی طور پر پیدا ہونے والی اور باہر سے درآمد ہونے والی اشیا ء دونوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔آٹے کی قیمت میں گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں اس سال ستمبر تک 50سے 60فیصد اضافہ ہوا۔پیٹرول کی قیمت میں 94.53 فیصد۔ خوردنی آئل 72.96 فیصد۔چینی کی قیمت میں 20 سے 30فیصد۔ دال مسور کی قیمت میں 25فیصد۔ مونگ کی دال میں 40فیصد سے زائد۔ دال ماش کی قیمت میں 30فیصد سے زائد ۔ کوکنگ آئل کی قیمت میں 10فیصد ۔ خشک دودھ کی قیمت میں پانچ فیصد ۔ گوشت کی قیمتوں میں تقریباً 10فیصد ۔ دودھ کی قیمت میں 10فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا اور چاول کی قیمت بھی 10 فیصد سے زائد بڑھی ۔ قارئین یہ بھی یاد رہے کہ برائلر چکن ۔ انڈوں ۔ ٹماٹر۔ پیاز اور پھلوں کی قیمتیں سیزن کے آف اور آن ہونے کے بعد بڑھتی گھٹتی ہیں تاہم سپلائی چین میں تعطل ان کی قیمتوں کو خراب کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ 
پاکستان میں موجودہ غذائی اشیا ٔکی قیمتوں میں سب سے بڑی وجہ سپلائی چین میں تعطل ۔ ذخیرہ اندوزی۔ سمگلنگ اور سب سے بڑھ کر حکومت کی بد انتظامی کا بہت بڑا کردار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کا مسلسل نظر انداز ہونا بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے گندم کی فصل کی پیداوار میں کمی آئی اور اس وقت بازار میں آٹا120روپے کلو فروخت ہو رہا ہے اور مزید بڑھنے کا یقینی حد تک خدشہ ہے۔ عوام کو ذہنی مریض بناتی اِس ہوش شربا مہنگائی کو نہایت ہی دانش مندی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اگر انتظامی اہلکار نیت کر لیں۔ پاکستان میں’’ پرائس مجسٹریٹ‘‘ کا سسٹم موجود ہے مگر یہ سسٹم مارکیٹ میں عملی طور پر موجود نہیں۔عوام کی مسلسل چیخ و پکار کے بعد جب حکومت نوٹس لیتی ہے تو ایکا دُکا ’’چھاپوں‘‘ کے بعد یہ نظام پھر غائب ہو جاتا ہے۔
بہتر ہوگا کہ اس سسٹم کو ختم کر دیا جائے اور ہر ضلع کا ’’ڈپٹی کمشنر‘‘ اشیا ء خورونوش کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ۔ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز سمگلنگ پرنظر رکھے مزیدبراں حکومت کو فوری فیصلہ سازی کی اہلیت کو بہتر بنانا چاہیے جس چیز کی ملک میں کمی ہو اس کو فورا درآمد کرنے کی پالیسی خودبخود عمل میں آجائے۔ معیشت کو ہینڈل کیا جا سکتا ہے حکومت کے انتظامی فیصلوں میں بہتری کی صورت جس میں خاص طور پر ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کو روکا جائے مزید براں حکومت کو فوری فیصلہ سازی کرنا ہوگی کہ جس چیز کی ملک میں کمی ہے اُس کو فوری درآمد کیا جائے۔غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کم نہیں ہورہی۔
معیشت کو بہتر بنانے کیلئے انتہائی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلا بنیادی قدم ہر شہر میں ڈیم بنائے جائیں ۔ خاص طور پر بارہا لکھ چکی ہوں کہ کالا باغ ڈیم جو کہ سب سے جلدی اور کم قیمت میں بن سکتا ہے۔ معیشت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اسے سیاسی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا ۔ یاد رہے کہ پاکستان ماضی میں ایک ترقی پذیر معیشت رہا ہے لیکن سیاسی مصلحتوں اور اشرافیہ کی گھناونی کرپشن کی وجہ سے آج تباہ حال معیشت کا سامنا کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اپنی معیشت کو سنجیدگی اور جرأت مندی سے نہ چلایا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں ۔
 یاد رہے کہ کوئی بھی ملک ایسے حالات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ آج بنگلہ دیش اور ویت نام بھی پاکستان سے بہت آگے جا چکے ہیں ۔اگر ہم اب بھی ایک صفحہ پر سنجیدہ نہ ہوئے تو خطہ کے دیگر ممالک سے بھی ہم بہت پیچھے رہ جائینگے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ ملک کی بقا۔ سلامتی ۔ استحکام اور عوام کو اشیا ئے ضروریہ کی سستی فراہمی کو ممکن بنا نے کیلئے سب فریقوں کو ساتھ ملا ئے اور سر جوڑ کر بیٹھ جائے۔ پاکستان کی معیشت ’’انتہائی نگہداشت ‘‘ وارڈ میں ہے اور ماضی اور حال کی حکومتیں مالی خسارے میں کمی، سرکاری اداروں میں اصلاحات،  بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں یکسر ناکام رہی ہیں۔
 انتہائی افسوس ہے کہ کوئی بھی حکومت مالی خسارے میں کمی نہیں لا سکی اور نہ ہی قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات نافذ کر پائی ۔صد افسوس زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم تک بیرون ملک سے خریدی جارہی ہے۔ پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر’’ جون 2020‘‘کے بعد سے اب تک کی سب سے نچلی سطح 10.3 ارب ڈالر تک آچکے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ کو نہ کوئی دیکھ رہا ہے اور نہ ہی مانیٹرنگ کا کوئی موثر نظام رُوبہ عمل ہے جس کا نتیجہ ہے افراط زر کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کو مہنگائی سے بدحال کر رکھا ہے۔ 
٭…٭…٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن