گنج بخشِ فیضِ عالم ،مظہرِ نورِخدا
معزز قارئین ! حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ کا 979 واں سالانہ عُرسِ مبارک ( 15 تا17 ستمبر ) کا آغاز دربار حضرت داتا گنج بخش ؒ میں رسم چادر پوشی سے ہوگیا ہے ، جس میں حکومتی عمائدین اور محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے منتظمین اور پاکستان اور بیرون پاکستان سے عُلماء و فضلاء اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے عقیدت مند ان ہُوئے ۔ رسماً نئی نسل کو، بتانا پڑتا ہے کہ ’’ آپؒ اپنے والدین کے ساتھ باری باری غزؔنی کے دو محلوں ہجویر ؔ اور جلابؔ میں اقامت پذیر رہے، پھر آپؒ ہجویری ؔاور جلابی ؔ کہلائے ۔
آپ کے پیر و مُرشد حضرت ابو الفضل بن حسن ختلیؒ کے حکم سے ،رُشد و ہدایت کا سِلسلہ شروع کرنے کیلئے لاہور تشریف لے آئے ‘‘۔ یہاں آپ ؒ درس و تدریس ، تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور اپنی ’’ شہرۂ آفاق تصنیف ’’کشف اُلمحجوب ‘‘ کا بڑا حصہ لاہور ہی میں لکھا۔ ’’ کشف اُلاسرار،منہاج اُلدّین اور دیوانِ علیؓ ‘‘ بھی آپؒ ہی کی تصانیف ہیں ۔روایت ہے کہ ’’ کوئی شخص آپ ؒسے ’’دیوانِ علیؓ ‘‘ مانگ کر لے گیا اور اُس نے وہ اپنے نام سے مشہور کردِیا۔ ’’سفینۃ الاوّلیاء ‘‘ میں شہزادہ دارا شکو ہ نے لاہور میں آپؒ کا وصال با کمال 454ھ بیان کِیا ہے ۔
’’ خواجہ غریب نواز ؒ !‘‘: 587 ھ( 1191ئ) میں خواجہ غریب نواز، نائب رسول ؐ فی الہند ، حضرت معین اُلدّین چشتی ؒ لاہور تشریف لائے اور مزار داتا صاحبؒ پر چلّہ کشی کشی، پھر داتا صاحبؒ کے بارے فرمایا کہ
’’گنج بخش ، فیض عالم، مظہرؒ نُور خُدا
ناقصاںرا پِیر کامِل، کاملاں را ،راہنما‘ ‘
یعنی۔ ’’حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کا فیض سارے عالم پر جاری ہے اور آپ ؒ نُورِ خدا کے مظہر ہیں،آپ ؒکا مقام یہ ہے کہ راہِ طریقت میں جو ناقص ہیں ان کے لئے پِیرِ کامِل اور جو خود پِیرِ کامِل ہیں ان کے لیے بھی راہنما ہیں‘‘۔
معزز قارئین ! ۔ خواجہ غریب نوازؒ ۔عربی اور فارسی کے عالم و فاضل تھے ۔ آپؒ کا دیوان فارسی زبان میں ہے۔ حضرت داتا صاحبؒ مزار پر چلّہ کشی کے بعد حضرت خواجہ صاحبؒ نے اپنے مُرید ِ خاص ( جو بعد میں آپ ؒ کے خلیفہ بنے ) حضرت قُطب اُلدّین بختیار کاکیؒ اور دوسرے مُریدوں کو ساتھ لے کر چار پانچ سال تک ملتان میں رہے ، جہاں خواجہ صاحب ؒاور اُن کے مُریدوں نے ہندی زبان، ملتانی (سرائیکی ) پنجابی اور دوسری علاقائی زبانیں سیکھیں تھیں اور ہاں! ۔ ’’ داتا ‘‘ ہندی زبان کا لفظ ہے؟۔ جِس کے معنی ہیں ۔ ’’دینے والا ، سخی، فیاض، کریم ، رازق، خُدا، فقیر، درویش!‘‘۔
’’ علامہ اقبالؒ !‘‘: علاّمہ اقبال ؒنے فرمایا کہ …
’’سیّد ہجویر، مخدُومِ اُمّم!
مرقدِ اُو، پِیر سنجر را، حرم!
بند ہائے کوہسار ،آساں گِیسخت!
در زمینِ ہِند، تُخمِ سجدہ رِیخت!‘‘
یعنی ۔’’حضرت سیّد علی ہجویریؒ اُمتّوں کے مخدوم ہیں۔ آپؒ کا روضہ خواجہ مُعین اُلدّین چِشتی ؒکے لئے حرم ہے۔ آپؒ نے حصولِ حق کی راہ میں حائل پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردِیا اور ہندوستان میں اسلام کا بیج بودِیا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہندوستان میں اسلام کا جو بیج بویا ٗ اُس کی آبیاری کی ، پھر دوسرے صُوفیائے کرامؒ کے فیض سے مسلمانوں نے الگ وطن کے خواب کی تعبیر حاصل کی! ‘‘۔
’’لاہور میں مدفون دو بادشاہ!‘‘: لاہور میں دو بادشاہ ۔ خاندانِ غُلاماں کے ، سُلطان قطب اُلدّین ایبک ؔاور مُغل بادشاہ ۔ نور اُلدّین جہانگیر بھی مدفون ہیں۔ قطب اُلدّین ایبک ؔکو ، اُن کی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے ، ’’ لکھ بخش / لکھ داتا‘‘ کہا جاتا تھا اور نور اُلدّین جہانگیر اپنی ’’ زنجیر عدل‘‘ کی وجہ سے مشہور تھا لیکن، مقبرہ ٔ جہانگیر ہی کیساتھ ، اپنے مقبرے میں مدفون اُن کی چہیتی بیگم (شا عرہ) ، ملکہ نور ؔجہاں نے تو، اپنے اور اپنے مجازی ؔخدا کے بارے میں پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ …
بَر مزارِ ، ما غریباں ، نَے چراغے ، نَے گُلے !
لَے پَر ِ، پروانہ سَوز د ، نَے صدائے بُلبلے!
یعنی۔ ’’ ہم غریبوں کے مزار پر ، کوئی چراغ نہیں جلاتا اور نہ کوئی پھول چڑھاتا ہے ، یہاں (چراغ کی لو) سے نہ کسی پروانے کا پَر جلتا ہے اور نہ ہی یہاں بُلبل کے چہچہانے کی آواز آتی ہے ! ‘‘۔
’’حاضری کے آداب!‘‘: معزز قارئین!۔ صدیوں سے بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر ؔ میں آباد میرے آبائو اجداد نے خواجہ غریب نواز، نائب رسولؐ فی الہند، حضرت معین اُلدّین چشتی ؒ کے دستِ مبارک پراسلام قبول کِیا تھا۔ قیام پاکستان اور ہجرت کے بعد ہمارا خاندان پاک ، پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا تھا۔ مَیں 1955 میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب ، میرے والد صاحب ’’تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ‘‘ رانا فضل محمد چوہان مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے ،مَیں نے اُنکی قیادت میں پہلے احاطہ داتا دربار صاحبؒ میں واقع خواجہ غریب نوازؒ کی چلہ گاہ ؔپر حاضری دِی اور پھر، بارگاہِ داتا صاحبؒ میں ، پھر یہ میرا معمول بن گیا۔’’ 18 دسمبر 2013ء ! ‘‘ : معزز قارئین !۔ ستمبر 1981ء سے ،میرے دوست ، گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کے بارے کئی بار بیان کر چکا ہُوں ، جنہیں 2013ء کے اوائل میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ نے برطانیہ میں ’’ نظریۂ پاکستان فورم‘‘ کا چیئرمین مقرر کِیا تھا۔ پھر کیا ہُوا؟۔
15 اگست 2013ء کو، گلاسگو ہی کے چودھری محمد سرور گورنر آف پنجاب کا منصب سنبھال چکے تھے کہ ’’ 18 دسمبر 2013ء کو ،مَیں نے اور ’’ بابائے امن ‘‘ نے گورنر ہائوس میں چودھری محمد سرور سے ملاقات کی تو ، وہ بولے کہ ’’ آج آپ ’’دونوں بابے‘‘ میرے ساتھ حضرت داتا گنج بخش ؒ کے دربار میں حاضری دیں گے ! ‘‘ جب ہم وہاں پہنچے تو مَیں نے ،حسب معمول خواجہ غریب نواز نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتی ؒ کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور ’’ بابائے امن‘‘۔ "Direct"بار گاہِ مزارِ داتا صاحبؒ کی طرف چلے گے ، کچھ دیر بعد مَیں ، گورنر پنجاب اور ’’ بابائے امن‘‘ کے ساتھ جا ملا تو، گورنر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ آپ کہاں چلے گئے تھے؟‘‘ تو ، مَیں نے کہا کہ ’’ مَیں تو"Through Proper Channel" ہی بارگاہِ حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ کے دربار میں حاضری دیتا ہُوں! ‘ ‘۔ معزز قارئین !۔ براۂ نوازش آپ میرے لئے دُعا کریں کہ ’’مَیں حسب معمول بارگاہِ حضرت داتا صاحبؒ میں حاضر ہو سکوں!‘‘۔