جمعۃ المبارک ، 19 صفرالمظفر1444ھ،16 ستمبر 2022 ء
پاکستان نے اوور 60 کرکٹ ورلڈ کپ نیوزی لینڈ کو ہرا کر جیت لیا
لو جی کر لو جو کرنا ہے۔ ایشیا کپ کے چکروں میں ہم اوور 60 کرکٹ کپ کے مقابلے بھول ہی گئے۔ شاید ہی کسی کو پتہ ہو گا کہ کوئنز لینڈ میں 60 برس سے زیادہ عمر کے بابوں کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہے ہیں جس میں پاکستانی بابے بھی شریک ہیں۔ اب ہم ایشیا کپ تو جیت نہ سکے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آ گئی ہے کہ ہمارے بابوں نے اوور 60 کرکٹ ورلڈ کپ جیت لیا۔ یوں ہمارے بابے سب سے آگے نکل آئے۔ اس مقابلے میں انہوں نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کوکو شکست دی جس کے بزرگوں نے پہلے کھیلتے ہوئے پاکستانی بزرگوں کی ٹیم کو 173 رنز کا ہدف دیا جو انہوں نے 45 ویں اوور میں پورا کر لیا۔ واضح رہے اس سے قبل سیمی فائنل میں پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا کو ایک وکٹ سے شکست دی تھی۔ اس فتح پر ہم اپنے بزرگ کرکٹروںکو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
گرچہ اس فتح سے ہمارے دلوں سے ایشیاء کپ کی شکست کا صدمہ کم نہیں ہوا اور ہم :
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
بھی نہیں کہہ پائیں گے۔ اس کے باوجود ہمیں خوشی ہے کہ جس عمر میں اکثر نالائق اولادیں اپنے والدین کو بابا بابا کہہ ہر معاملے میں اپنی من مانی کر کے ان کی دل شکنی کرتی ہیں۔ انہیں سبق ملے گا کہ بابے سب سے آگے بھی ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بلا کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں پرانی شراب اور پرانا سونا کبھی بے قیمت نہیں ہوتا۔ اولڈ از گولڈ بھی اسی کوکہتے ہیں۔
٭٭……٭٭
سیاہی چھوڑتا قلم شہنشاہ چارلس کے لیے درد سر بن گیا تاریخ غلط لکھ دی
بھئی بادشاہ جو بھی ہو ویسے ہی تنک مزاج ہوتا ہے۔ اوپر سے جب بادشاہت ملی ہی بڑھاپے میں ہو تو پھر
تند خو ہے کیا سنے وہ دل کی بات
اور بھی برہم کو برہم کیا کریں
والی کیفیت ہو جاتی ہے۔ ملکہ برطانیہ کی موت کے بعد سترے بہترے شہزادہ چارلس اب برطانیہ کے بادشاہ ہیں۔ تعزیتی کتاب میں لکھتے ہوئے وہ اس وقت جھنجھلا اٹھے جب ان کے زیر استعمال قلم نے سیاہی چھوڑ دی۔ اگر ہمارے بادشاہوں کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ پوری کتاب پھاڑ دیتے سیاہی کی دوات اُلٹ دیتے اور قلم توڑ دیتے مگر برطانیہ کے نئے بادشاہ نے جذبات سنبھالے مگر پھر بھی غصہ میں تاریخ غلط لکھ بیٹھے جس کو بعد میں پوچھ کر درست کر لیا۔ اب اس عمر میں اتنا تحمل تو آ ہی جاتا ہے۔ غالب سے معذرت کے ساتھ
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی قلم و دوات میرے آگے
کہتے ہیں جس طرح بے وقت تاخیر سے ادا کی جانے والی نماز کا زیادہ ثواب نہیں ہوتا۔ اسی طرح عمر کے اس حصے میں جس میں اس وقت کنگ چارلس ہیں، اگر بادشاہت ملی بھی تو کیا ہوا۔ یہ تو گناہ بے لذت والی عمر ہے۔ ساری جوانی وہ جس تاج و تخت کے خواب دیکھتے رہے ہوں گے وہ بڑھاپے میں انہیں ملا۔ اب وہ مزید کتنا بھی جی لیں۔ وہ مزے وہ کروفر جو جوانی کی حکمرانی میں آتا ہے۔ اب بھلا کہاں نصیب ہو گا۔ اب تو وہ صرف تاش کے بادشاہوں کی طرح برطانیہ کے صرف ایک بادشاہ ہوں گے۔اس طرح شاید وہ بھی اب یہی کہیں گے ’’جس دل پہ ناز تھا ہمیں، وہ دل نہیں رہا‘‘
٭٭……٭٭
وزیراعلیٰ سندھ کی ناراضی‘ ڈپٹی کمشنر جامشورو چھٹی پر چلے گئے
سندھ میں کون اس وقت ناراض نہیں۔سیلاب متاثرین تو سب سے زیادہ ناراض ہیں۔ وہ تو عوامی نمائندوں‘ ایم پی ایز‘ ایم این ایز‘ بیور کریٹس‘ سرکاری حکام سب پر بری طرح برس رہے ہیں۔ جہاں کوئی سرکاری افسر یا ممبر صوبائی و قومی اسمبلی تشریف لے جاتا ہے‘ خواہ مشیر ہو یا وزیر‘ انہیں عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ انہیں ہر جگہ غصے میں بپھرے تباہ حال متاثرین سیلاب سے بے بھائو کی سننا پڑتی ہے۔ کئی مقامات پر تالپور ہو یا وسان‘ میمن ہو یا شاہ سب کو بے نقط پڑیں۔ ان کی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے۔ انہیں گاڑیوںسے اترنے‘ بات کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا اور واپس جائو کے نعروں کے ساتھ انہیں سیلاب زدہ علاقوں سے بھگایا گیا۔ اس لئے کہ ابھی تک حکومت سندھ کے یہ وزیر مشیر‘ سرکاری افسران ان علاقوں میں عوام کی مدد کو نہیں پہنچے۔ جن کے ووٹوں سے اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ اگر آئے بھی تو بڑے کروفر کے ساتھ مہنگی گاڑیوں میں خود کو اعلیٰ و افضل سمجھ کر اورعوام کو کیڑے مکوڑے مانتے ہوئے۔ خود وزیراعلیٰ سندھ کے علاقے میں تعینات ڈپٹی کمشنر جو طویل عرصے سے وہاں تعینات ہیں کوعوام کے علاوہ وزیراعلیٰ سے بھی کڑوی کسیلی سننا پڑیں تو وہ ناراض ہوکر چھٹی پر چلے گئے مگر کیا صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران بھی ایسا کرنے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ وہ بھی یا تو سب کچھ لٹانے کیلئے عوام میں آ ئیں ان کی دلجوئی کریں یا پھر مستعفی ہو جائیں۔ یہی حال اس وقت پنجاب اور بلوچستان ہی نہیں‘ خیبر پی کے میںبھی ہے جہاں متاثرین غصے سے بھرے بیٹھے ہیں‘ بس لاوا پھٹنے کی دیرہے جس کے بعد حکمرانوں اور اشرافیہ کو ہر جگہ جامشورو کے علاوہ بھی جائو ہماری جان چھوڑو‘‘ کے نعرے سننا پڑیں گے۔
٭٭……٭٭
کراچی میں شہریوں نے تشدد کرکے 2 ڈاکومار ڈالے
جب قانون خاموش تماشائی بن کر صرف کمزوروں کو دبانے کیلئے رہ جاتا ہے تو پھروہ لوگ جو خاموش اکثریت کہلاتے ہیں اپنے لٹنے مرنے پر زیادہ دیر خاموش نہیں رہتے۔ جلد یا بدیروہ بھی قانون کی پاسداری نہ ہونے پر اپنے بچائو کیلئے میدان میں آجاتے ہیں۔ کہتے ہیں پائوں تلے آئے تو چیونٹی بھی کاٹتی ہے۔ سو اب یہی کچھ کراچی میں بھی ہو رہا ہے۔ رینجرز کے آنے سے کچھ عرصہ کراچی والوں نے سکون کا سانس لیا تھا مگر ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے مصداق لندن کے ڈھونگی بھائی نے جن غیرقانونی عادتوں کو نوجوانوں اور لڑکوں میں پختہ کر لیا تھا وہ اب بھی رنگ لا رہی ہیں۔ بھتہ خوری‘ لوٹ مار‘ ڈکیتی اور چوری کی وارداتیں پرس اور موبائل چھیننا عام ہے۔ ہر چوک پر یہ چور لٹیرے موجود ملتے ہیں۔راہ چلتی گاڑیوں‘ گلیوں میں یہ اسلحہ کے زور پر وارداتیں کرنے والے قانون سے بچ نکلتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھی شہریوں کے ہاتھوں ڈاکوئوں کو ٹھکانے لگانے کے واقعات سامنے آئے‘ مگر یہ چور ڈاکو باز نہیں آتے ۔ گزشتہ روز اورنگی ٹائون میں فیصل چوک کے قریب شہری کولوٹتے ہوئے دو ڈکیت شہریوں کے ہجوم کے نرغے میں آگئے تو لوگوں نے ان کی خوب درگت بنائی جس سے ایک ڈاکو موقع پر اور دوسرا ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ گرچہ یہ غیرقانونی حرکت ہے‘ مگر جب قانون شہریوں کو تحفظ نہیں دے گا‘ غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑے گا تو وہ کیا کریں گے۔ بہتر تھا کہ ان کو پھینٹی لگا کر پولیس کے حوالے کیا جاتا۔ یہ جان سے مارنا بہرحال زیادتی ہے۔