سیلاب کی تباہ کاریاں اور آبی ذخائر کی ضرورت
ہمارے یہاں مون سون کاموسم بدل رہا ہے جبکہ چترال اور سوات سمیت پاکستان کے شمال مغربی حصوں میں رونما ہونے والے کلاوڈ برسٹ کے واقعات ہمیں اس بات پرمجبور کر رہے ہیں کہ ہم نا صرف پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے اقدامات عمل میں لائیں بلکہ اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی بھی کوئی تدبیر اختیار کریں۔گلوبل وارمنگ کی بنا پر ایک طرف گلیشیر پگھل رہے ہیں تو دوسری جانب درجہ حرارت کے بڑھنے سے غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں،جس نے ملک میں سیلابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں بڑی تباہی آئی ہے،کے پی کے میں بھی تباہی کچھ کم نہیں ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی نے ملک بھر میں سیلاب اور تباہی کی موجودہ صورتحال پر ایک بریفنگ میں بتایا ہے کہ پاکتان میں آنے والاسیلاب تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے،حالیہ ہونے والی بارشیں پچھلے تیس( 30 )سال کی نسبت 190 فیصد زیادہ ہیں جبکہ سندھ میں 465 فیصد اور بلوچستان میں 437 فیصدزیادہ بارشیں ہوئیں۔ سرکاری اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر میں 16 لاکھ 88 ہزار گھر، 246 رابطہ پل، 5 ہزار735 کلو میٹر پر محیط سڑکیں،اور ساڑھے 7 لاکھ مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوئے۔
اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق مجموعی طور پر 1325 افراد لقمہ اجل بنے اور 13 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ہماری دوسری بڑی آزمائش آبادی میں اضافہ کی شرح ہے،1947ء میں قیام پاکستان کے وقت پانی کی فی کس اوسط دستیابی 5 ہزار مکعب میٹر سالانہ سے زیادہ تھی جس میں 80 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے اور اب یہ ایک ہزار مکعب میٹرسے بھی کم سالانہ کی سطح تک گر چکی ہے اور ہم قحط سالی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں پانی کے حوالے سے تیسرا بڑا مسئلہ زیرِ زمین پانی کی سطح کا تشویشناک حد تک نیچے گرنا ہے،اس وقت لاہور شہر میں واسا 750 فٹ کی گہرائی سے پانی نکال رہا ہے جبکہ زیرِ زمین پانی صرف ایک ہزار فٹ کی گہرائی تک ہی موجود ہے۔ کوئٹہ میں زیرِزمین پانی سطح اس حد تک گر چکی ہے کہ اسے بحال کرنے میں کم از کم دو صدیاں لگیں گی۔
ہمارا ایک اور مسئلہ پانی کی قیمت سے متعلق ہے اور یہ غالبا ہماری آبی اقتصادیات کو درپیش مسائل کی جڑ ہے۔ہم پانی کو اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے یہ ہوا ہو جو بلاقیمت دستیاب ہے۔پانی کی قیمت کا تعین کئے بغیر پانی کے زیر زمین رساو کو روکنے کے لئے نہروں کی پختگی کے منصوبوں کا انتظام بہت مشکل ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاَ145 ملین ایکڑ فٹ دریائی پانی دستیاب ہوتا ہے اس میں سے ایکسو ایک ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں میں منتقل ہوتا ہے اس پانی میں سے چالیس ملین ایکڑفٹ پانی کھیتوں تک پہنچتے پہنچتے ہی کم ہوجاتا ہے،یعنی 4 ملین ایکڑ فٹ پانی بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے جبکہ 36 ملین ایکڑ فٹ پانی زمین میں جذب ہو جاتا ہے۔
پاکستان کو درپیش مسائل کے حل اورسمندر میں میں گرکر ضائع ہونے والے پانی ذخیرہ کرنے کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔خاص طور پر سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ ہمیں بڑے بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے، کٹزرہ کے مقام پر جو ڈیم بن سکتا ہے،وہ 35 ہزار ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کر سکتا ہے،دیا میر بھاشا ڈیم، ساڑھے 6 ملین ایکڑ فٹ پانی جبکہ کالا باغ کے مقام پر بھی 6 ملین ایکٹرفٹ پانی جمع کیا جا سکتا ہے،کالا باغ کی ایک حصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دریائے کابل کا سیلابی پانی بھی روکا جا سکتا ہے۔گلوبل وارمنگ اور مون سون کی شدت اور درجہ حرارت کے بڑھنے سے کلاوڈ برسٹنگ کی وجہ سے آئندہ بھی ایسے سیلابوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستیاب مقامات پر آبی ذخٰیرے تعمیر کئے جائیں تاکہ نا صرف سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے بلکہ جانی ومالی نقصانات سے بچا جا سکے ۔