• news
  • image

ہر گھر اسکول ، ہر فرد عدالت 

ہیرو کی صفات یا خصوصیات ناقدین کے لیے ہمیشہ سے ہی مشغلہ رہا ہے۔کس کو کیا کرنا چاہیے اور کیسے ہونا چاہیے والی زبانیں گویا زمین کا گز ہو چکی ہیں اور دماغ اتنے محدود کہ علاقائی و خاندانی تعصب سے آگے نہیں نکل پاتے۔ اسے ہیرو پتی کہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پتوں میں بٹے ہیرو۔غلام ہیرو ، ظالم ہیرو ، حکمران ہیرو ، محکوم ہیرو ،محبوب ہیرو اور بے شمار گروہی ہیرو۔ آپ بھلے سے انھیں مافیا کا نام دیں لیکن ہیرو پتی اتنا مضبوط سماج ہے جسے ہر دور میں دفاعی کیچوے میسر رہے ہیں جو بیک وقت شیر اور بھیڑیے کا دفاع جنبش ابرو سے کرنے پر قادر ہیں۔کہانی سے ایسے معاشرہ کی جہاں ہر شخص کو قلم اور تیر فراہم کرنے پر زور تھا۔
ملکی آئین میں ترامیم کر کے ہر گھر اسکول اور ہر دروازہ عدالت کا سلوگن ایشو کیا گیا۔ لوگوں میں جوش دیدنی تھا۔ قلم پکڑتے ہی اسے مسواک اور لاٹھی بیک وقت استعمال کرنے کی خصوصی اجازت بھی فراہم کی گئی۔قلم سے کیا کام لیے گئے اس میں گدی نشینوں اور پردہ نشینوں کے نام بس بیٹری والے بلب سے ہی جگمگائے جا سکتے ہیں۔شرط اولین یہ ٹھہری کہ بیٹری صرف سرکاری خرچ سے ہی ڈلوائی جائے گی۔ رہی بات عدالت کی تو ہر شخص کو ہتھوڑا اور آنکھوں پر باندھنے والی کالی پٹی بھی مہیا کی گئی بلکہ لازم قرار دیا گیا کہ یہ تصویر اپ لوڈ کی جائے۔ پورے معاشرہ میں دو طرح کے لوگ تھے "استاد " اور منصف۔ بجھے چراغ لے کر چند دیوانے فرزانوںکی تلاش میں نکلے لیکن صد افسوس وہ جس طرف نکلتے من گھڑت کہانیاں اور لوٹ مار کا استحصال ان کا رستہ روک لیتا۔ عوام جوق در جوق انصاف کے دروازے تلاش کرنے میں مشغول تھے کئی بار تو دیوار کو ہی دروازہ سمجھ کر عدالت لگا لی جاتی۔ 
حاصل پور میں رکشہ ڈرائیور کو بٹھا کر بھی ایسی عدالت لگائی گئی۔ بھلا رکشہ اور پجارو کا کیا مقابلہ ، کہاں بندگان ذلیل اور کہاں سرکردہ سرداری۔ ہم پچھلے زمانوں کی طرف سفر کر رہے ہیں جہاں 
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا 
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا 
 ہم تو اپنے ہونے کی گواہی بھی انصاف سے مانگتے ہیں جس کی ایک آنکھ ہمیشہ بند رہتی ہے اور کھلی آنکھ صرف خواص کے لیے ہے بند آنکھ سے عام لوگوں کو ان کے ہونے کی گواہی کبھی نہیں مل سکتی۔ واقعات کے ظہور و نمود کی منصوبہ بندی میں ہر طرف انصاف کی کرشمہ سازی ہے سو ہم دشمنوں سے اتنا خوف زدہ نہیں جتنا دوستوں کی بد دعاوں سے ڈرتے ہیں۔دیدہ و دل فرش راہ کیے کرامات کا سکریچ ہماری زندگی کے گرد وہ ڈور باندھ دیتا ہے جس پر آئندہ اٹھنے بیٹھنے سے لے کر سوچ کا مدار ہوتا ہے۔ 
شبھ گھڑی ، نظر بد ، حاسدین ، حسد ،دشمنوں کی پیدا کردہ رکاوٹیں اور ان سے منسلک پروپیگنڈہ ہمیں مفلوج کرنے میں میٹھے زہر کا کردار ادا کرتا ہے۔ فلاں بزرگ ، فلاں بابا جی ، فلاں لیڈر کے گرد شہد کا چھتا یعنی ان کے کردار و کرامات کی شہرت نہ صرف ہمیں کشاں کشاں وہاں تک لے جاتی ہے بلکہ ہم اردگرد کے لوگوں کو فیض پہنچانے یا اس فیض سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔میرا بابا یا پیر ایسی گیدڑ سنگھی تھامے ہمیں "جا تیرا کام ہو گیا " کے نسخے درکار ہیں۔ہم تو بھکاری اور نشے کے دھوئیں سے لپٹے لاچار لوگوں کی دعا کو بھی یوں سینے سے لگاتے ہیں جیسے ہماری پاس وہ شہ رگ نہیں جس سے بھی قریب تمام کائنات کو ازل سے ابد تک نوازنے والا ہماری پکار کو ہر لمحہ سنتا ہے۔وہ غیرت جو درویش کو تاج سر دار پہناتی ہے اور جہان تگ و دو میں بڑی چیز ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ صرف مکر زدہ درویش کے ہاتھ ہے یا تخت پر بیٹھے بت بے رحم کے پاس۔ اور ہم صرف اس کے دفاع کے لیے رکھے گئے ہتھیار ہیں۔خضر ملتا نہیں اس پر بھی شاید انصاف کا ٹھپا لگ چکا ہے ہما سر پہ بیٹھ نہیں سکتا اس کے پروں پر انصاف اکیڈمی کھل رہی ہے۔آرزو ہے کہ کوئی پیر زندگی بھر کی پونجی لے کر ہماری کم ہمتی، سستی، کاہلی اور بے عملی کے غبارے میں گیسی ہوا بھر دے تاکہ ہمیں اسے اڑان بھرنے کی کوشش سے بھی نجات مل جائے۔ کراماتی شعبدہ بازیوں کے دشت میں سرگراں پیر و مغنی ہر بار ایک نیا بہانہ ، نئی ڈیمانڈ تراشتے ہیں۔ لیکن ہم لگے رہتے ہیں کیونکہ ہم سب کچھ داو پر لگا چکے ہوتے ہیں۔ہماری کم زوری ، بے بسی اور بے چارگی ہر بار ایک نیا جواز تراشتی ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں جائز ہے۔۔ مہنگائی ، لاقانونیت، بے انصافی کے کاروبار میں رنگ بھرتا جھوٹ اور وعدہ خلافی ہمیں بجھنے نہیں دیتی۔ہمیں خون دے کر ٹمٹمانے کی عادت پڑ چکی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن