شوہر تبدیل کردیںیا حکومت!
کیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ کھاتے پیتے گھرانے بھی مہنگائی کا رونا روتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن سفید پوش شہریوں کے لیے یہ ایک بڑی آزمائش ہے۔ ملک میں مہنگائی کی تازہ لہر نے شہریوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔اس تشویش کی سب سے بڑی وجہ آٹے کی قیمتوں کا بے قابو ہونا ہے۔فلور ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلوں میں سبزیوں کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، فلورملز کو آٹے کی فراہمی میں کمی اور راستے منقطع ہونے سے بحران پیدا ہوا۔ اس کے علاوہ مہنگی بجلی، گیس، تیل، دالوں، سبزیوں، گھی، گوشت کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب عوام ہر روز فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔عوام کا کہنا ہے کہ تین مہینے پہلے تک انہیں کم از کم دو وقت کا کھانا نصیب ہو رہا تھا لیکن اب دو وقت کا کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔عوام نالاں ہیں کہ گیس گرمیوں میں آتی ہے نہ سردیوں میں لیکن بل ہر مہینے آتا ہے‘ ان کے نزدیک موجودہ حکومت ہی اس مہنگائی کی ذمہ دار ہے۔
سیلاب کی تباہی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی سے لوگ تنگ آگئے ہیں۔ معاشرے میں زوجین کے درمیان جھگڑوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک معروف ٹی وی اینکر سے سیلابی علاقے میں خاتون نے مہنگائی و بے بسی کی شکایت کی کہ ہمارے خاوند خرچہ نہیں دیتے اور حکومت بھی ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ ایسا کہتے ہوئے خاتون نے مضحکہ خیز مطالبہ کر ڈالا کہ ’’ہمارے شوہر بھی ناکارہ ہیں، ہم کیا کریں، یا تو ہمارے شوہر بدلی کر کے دو یا حکومت کو تبدیل کرو یا تو ہماری قسمت کو چمکاؤ‘‘ ان خاتون خانہ کو کون سمجھائے کہ حکومتیں تو تبدیل ہو سکتی ہیں مگر شوہر کے عقد میں وہ ایک مضبوط’’ سوشل کنٹریکٹ ‘‘ کے تحت آئی ہیں جو کوئی بازیچہ اطفال نہیں ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ اس قسم کے جملوں سے معاشرتی حسن کو گرہن لگتا ہے۔ عورت کی عظمت کے شایانِ شان نہیں کہ اس قسم کے الفاظ صنف نازک سے منسوب کیے جائیں۔ یہ بات سچ ہے کہ مہنگائی نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ نان و نفقہ پر مبنی جھگڑے معمول اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ دو وقت کا کھانا، اوڑھنے پہننے کی ضروریات اور رہائش تو بنیادی چیزیں ہیں۔اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے عورت اور کنبے کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے۔ عورت اپنے والدین کے گھر ہو تو اس کا کفیل باپ ہے۔ باپ نہ ہو تو بھائی ہے۔ شادی کے بعد شوہر کے گھر آجائے تو یہاں اس کے تمام اخراجات اور ضروریات کو پورا کرنا اسی کی ذمہ داری ہے۔ سماجی نقطہء نگاہ سے اس مسئلے یا ایسے جھگڑوں سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ جس وقت شادی کے دیگر معاملات طے ہو رہے ہوں اسی وقت یہ بھی طے کر لیا جائے کہ شوہر کی جانب سے ہر ماہ کتنی رقم بیوی کو جیب خرچ کی مد میں ادا کی جاے گی۔ رقم کا تعین مرد کی مالی حیثیت اور آمدن کے مطابق کیا جائے تاکہ وہ سہولت سے ہر ماہ یہ رقم ادا کر سکے۔مرد کی ذمہ داری اگر مال کمانا ہے تو عورت کی ذمہ داری ہے کہ کفایت شعاری کے دائرے میں رہتے ہوئے اس مال کو جائز طور پر صرف کرے۔
دولت کمانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ گھر کے کام جتنا سرانجام دے سکتی ہیں، کوشش خود کرنے کی کریں۔ اگر بجٹ اجازت دیتا ہے تو ماسی وغیرہ رکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں لیکن خود کام کرنے سے جسمانی ورزش تو ہوگی ہی اور کئی بیماریوں سے بھی چھٹکارا ملے گا۔مہینے بھر کا راشن اکٹھا خرید لیں اور بجٹ کے مطابق ضرورت کا درست اندازہ کرکے اس کے مطابق ہی خریداری کریں۔ ضروری نہیں کہ ہر فنکشن کے لیے نئے جوڑے ہی خریدے جائیں۔ استعمال شدہ فینسی جوڑوں کو اپنی مہارت سے دوبارہ استعمال میں لانے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ بچوں کو مہنگے کھلونے دلوانے کی بجائے انھیں سیونگ بکس، پزل، کلرز، بیڈمنٹن، کیرم بورڈ، گیند اور پڑھنے کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابیں یا کوئی ایسی چیزیں خرید کر دیں جس سے ان کی جسمانی اور دماغی نشونما ہو، اپنے گھرانے کو مقروض اور غیر ضروری لش پش اخراجات سے بچائیں، اس کے علاوہ گھر کی بعض ضروریات کے لیے کچھ رقم جمع کرنے کی بھی عادت ڈالیں تاکہ وہ مناسب مواقع پر استعمال ہوسکے۔ جو لوگ اپنی آمد و خرچ کا حساب رکھتے ہیں اور اسی انداز سے چلتے ہیں وہ کم آمدنی میں بھی اچھی زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں اور انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔بڑھتی مہنگائی اور موجودہ حالات کی تجارتی کساد بازاری اور مندی کے دور میں تو یہ اور بھی ضروری ہے۔ اسکے علاوہ ہمارے نبی اور اللہ تعالیٰ کی تعلیمات ہمیں یہی درس دیتی ہیں کہ ہم اپنی مالی منصوبہ بندی کو نظر انداز نہ کریں۔ قارئین اسلام کی امتیازی خصوصیت جو انہیں اقوام عالم میں ممتاز بناتی ہیں وہ یہ کہ خواتین اپنے مجازی خدا کی عزت کرتی ہیں اور محدود وسائل کے باوجود صبر،شکر، قناعت کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے زندگی بسر کرتی ہیں۔ پاکستانی خواتین کا حکومت وقت کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرا کر نامعقول فقرے کہنا بلاشبہ لمحہ فکریہ ہے۔