کچھ تو کشمیر کی خبر لیجئے
اس وقت پاکستان اندرونی طور پر بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف سیاسی انتشار عروج پر ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے پورے ملک کو پریشان کر رکھا ۔ تیسری طرف سیلاب نے وہ تباہی پھیلائی ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان خطرناک مسائل میں پھنسا پاکستان آئی ایم ایف کی مہربانی کا بھی منتظر ہے جو اپنے شرائط پر مہربانی فرماتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت اِدھر اُدھر سے قرضہ لے کر کام چلانے کی کوشش کرتی ہے۔ یوں ملکی مسائل کے گرداب میں گرنا چلا جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اس گرداب سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتی۔ ان سب حکمرانوں کا زور صرف اور صرف عوام سے قربانیاں طلب کرنے پر ہوتا ہے۔ اشرافیہ سے کوئی بھی قربانی طلب نہیں کرتا انہیں مقدس گائے کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جن کی ٹہل سیوا بھی عوام کا خون چوس کرکی جاتی ہے۔ انصاف، امن ، ترقی ، خوشحالی نجانے کیوں لگتا ہے یہ سب ایکا کر کے پاکستان کو بیچ منجدھار کے اکیلا چھوڑ کر کہیں دور جا نکلے ہیں۔
ان حالات میں عالمی سطح پر اس ملک کی کیا قدر ہو گی جس پر کوئی عالمی ادارہ یقین کرنے کو تیار نہیں۔ وہ مالی تعاون کرتے ہوئے خوفزدہ ہیں کہ واپسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ ایسے میں ہمارے ازلی دشمن کو تو موقعہ ملا ہے کہ وہ جی بھر کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں وہ کچھ کرے جو اس کی چانکیائی اور انتہا پسند سیاست کا حصہ ہے۔ 3 سال ہونے کو ہیں مقبوضہ کشمیر کی بھارت نے آئینی حیثیت ختم کر کے اسے اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ وہاں آباد کاری کے قانون کو بدل کر ہر ہندوستانی کو وہاں کی شہریت حاصل کرنے اور وہاں جائیداد بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ وہی اصول ہیں جن کو اپناتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین کی آبادی کو بے دخل کیا ان کی اراضی پر جبری قبضہ کیا خرید لیا اور یہودیوں کو آباد کر کے فلسیطنوں کے بے دخل کیا۔
اب بھارت بھی اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری ہندوئوں کو لا کر آباد کر کے وہاں کی مسلم اکثریت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس پر ہماری یعنی پاکستان کے عوام اور حکمرانوں کی خاموشی حیرت ناک ہے۔ تین برس سے کہیں سے بھی کوئی توانا آواز یا تحریک نہیں اٹھی جو دنیا کو اس مسئلے پر بیدار کرے۔ انہیں اقوام متحدہ کی بھولی ہوئی قراردادیں یاد دلائے کہ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ یہاں کوئی یکطرفہ کارروائی نہیں کر سکتا۔ ہندوستان اور پاکستان اس مسئلے کے فریق ہیں۔ دنیا کی چھوڑیں خود اسلامی ممالک کوہم اس مسئلے پر گزشتہ 71 برسوں سے اپنا ہمنوا نہ بنا سکے۔ رسمی قراردادیں منظور کر کے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسئلہ کشمیر پر ا پنا حق ادا کر دیا یہ ہماری سب سے بڑی بھول ہے۔ اب بھارت کی انتہا پسند حکومت ہماری اس بھول کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور اس نے گزشتہ 3 برسوں سے کشمیر میں روزانہ جنگجوئوں سے مسلح تصادم کے نام پر تین یا چار کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس طرح نوجوانوں کو مار کر بھارت نئی نسل میں پروان چڑھنے والے آزادی کے جذبے کو بے دردی سے کچل رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد کشمیریوں کی نئی نسل زمین کے اوپر نہیں نیچے آباد ملے گی۔ اس پر ہمارے حکمران خاموش ہیں۔ ورنہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے سامنے ان ماورائے قتل روزانہ کی رپورٹوں پر شور تو مچایا جا سکتاہے۔ اسلامی امہ کو مسلمانوں کے اس قتل عام پر کیا بیدار نہیں کیا جاسکتا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اس تیزی کے ساتھ کشمیریوں کی نسل کشی پر چپ ہیں جس کا نتیجہ جموں کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کم ہونے کی صورت میں نکلے گا جہاں ہندوئوں کی آبادی بڑھ جائے گی۔ جس کے بعد مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ بھارت چاہتا بھی یہی ہے کہ وادی کشمیر میں مسلم اکثریت کا خاتمہ ہو وہ پوری ریاست میں ہندوئوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی اسی لیے کر رہا ہے کہ اگر کبھی رائے شماری کرانا بھی پڑے تو یہ علاقہ جہاں اب 30 فیصد ہندو سکھ اور بودھ جبکہ 70 فیصد مسلمان آباد ہیں۔ میں یہ تناسب 55,50 تک ہو جائے۔
اس لیے ابھی تھوڑا وقت ہمارے پاس بچا ہے اگر ہم نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور کشمیری مسلمانوں کے بھارتی فوج کے ہاتھوں وحشیانہ قتل عام پر عالمی برادری اور مسلم امہ کو بیدار نہ کیا تو ڈر ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ہماری تمام کاوشیں ناکام ثابت ہوں گی اور تاریخ اس غلطی پر ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس سے بڑی شرمندگی اور دکھ کی بات کیا ہو گی کہ ہم اپنے متنازعہ جبری قبضہ شدہ علاقے کے اپنے بھائیوں کو غاصب افواج کے ہاتھوں مرتا دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔ اور اسے حاصل کرنے کی کوشش تک نہیں کر رہے۔