شہباز گل کے ریمانڈ کیخلاف اپیلیں ، سپریم کورٹ کا وفاق کو نوٹس ، تفتیشی طلب
اسلام آباد (وقائع نگار) سپریم کورٹ نے شہباز گل کی جسمانی ریمانڈ کیخلاف اپیلوں پر وفاق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمہ کے تفتشی کو بھی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔ شہباز گل کی دوبارہ ریمانڈ کے خلاف درخواست کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربرا ہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ کیس تو ریمانڈ کے خلاف تھا اس میں ضمانت بھی ہو چکی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا آپ کا کیس کیا ہے۔ جس پر شہباز گل کے وکیل مؤقف اختیار کیا یہ کیس حراست میں کئے گئے تشدد کا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جو غداری کا چارج لگایا گیا تھا کیا اس کا ٹرانسکرپٹ موجود ہے، جاننا چاہتا ہوں کہ شہباز گل نے کیا کہا تھا۔ کل ہائیکورٹ نے ساری 13 دفعات کو کہہ دیا یہ نہیں لگتی۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے وکیل سے سوال کیا کیا ریمانڈ لینا غیر قانونی ہے؟ یا ریمانڈ دینا عدالت کا اختیار نہیں؟۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا ایک انٹرویو کی بنیادپر سارا کیس بنایا گیا۔ شہباز گل کے دوسرے وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ ایک نجی ٹی وی چینل پر یہ انٹرویو نشر کیا گیا تھا‘ لینڈ لائن پر کال ہو ئی جس کے بعد وکیل نے شہباز گل کا انٹرو یو پڑھ کر سنایا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا الزام یہ ہے کہ شہباز گل نے جوانوں کو حکم نہ ماننے پر اکسایا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے شہباز گل کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیا فوجداری قوانین سپریم کورٹ پر لاگو ہوتے ہیں جس پر وکیل نے کہا جی بالکل لاگو ہوتے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ فوجداری کریمنل کوڈ میں سپریم کورٹ کا ذکر نہیں، صرف سی پی سی ہی لاگو ہوتا ہے، یہ بتائیں پولیس نے شہباز گل سے کیا ریکوری کرنی تھی؟ کیا پولیس نے شہباز گل سے زبان ریکور کرنی تھی جس سے وہ بولا تھا؟۔ شہباز گل سے جو ریکوری کی گئی اس کا کیس سے کوئی تعلق ہی نہیں، جس پر وکیل نے کہا شہباز گل پر پستول ڈالا گیا، پولیس کا کہنا ہے کہ شہباز گل کے ڈرائیور سے اسکا موبائل ریکور کرنا ہے اس لئے ریمانڈ دیا جائے، شہباز گل پر دوران حراست بدترین تشد د کیا گیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا تشدد کیخلاف شہباز گل کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنا ہوگا، شہباز گل کو متعلقہ فورم پر درخواست دائر کرنے سے کس نے روکا ہے؟۔ وکیل نے کہا ہماری کوئی سنتا ہی نہیں۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کیا پی ٹی آئی حکومت میں کسی پر پولیس نے تشدد نہیں کیا؟۔ جس پر وکیل نے کہا پولیس تشدد کے واقعات کم ہی سامنے آتے ہیں، ملکی تاریخ کا سب سے متنازعہ ریمانڈ شہباز گل کا دیا گیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا جج نے آرڈر میں لکھا کہ شہباز گل کے جسم پر تشدد کے نشان ہیں، کیا اب جج صاحب تشدد کے کیس میں بطور گواہ بھی پیش ہونگے؟۔ شہباز گل کے وکیل کی جانب سے سوالات کے جوابات نہ دینے پر عدالت نے سرزنش کر دی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ جوڈیشل ریمانڈ کے اندر ملزم کو 14 دن بعد مجسٹریٹ کے سامنے کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا ٹرائل کیلئے ملزم کو پیش کیا جاتا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا مجسٹریٹ قیدی کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے، آپ کو اتنا بھی علم نہیں، ماشاء اللہ، سپریم کورٹ پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتا، آپ کیس کی تیاری کیوں نہیں کرکے آئے۔ سلمان صفدر نے کہا سٹرٹیجک میڈیا سیل شہباز گل کے مقدمے کے پیچھے ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کیا شہباز گل کیخلاف مقدمے کی بنیاد میڈیا سیل ہے؟ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ ٹرائل کی ہیں وہاں کریں۔