• news
  • image

 پرش۔ مہاپرش 


ازبکستان  کے دوسرے بڑے شہر سمرقند میں شنگھائی کانفرنس ہوئی تو ہمارے ہاں بعض ٹی وی چینلز اور سول میڈیا پر اسے ثمرقند لکھا جانے لگا۔ یہ ’’اصلاح‘‘ شاید اپنی فارسی دانی ظاہر کرنے کے لیے کی گئی ہو گی۔ لیکن یہ سمرقند ہی ہے، ثمرقند نہیں۔ ازبکستان کی سرکاری ویب سائٹ، فارسی اور ازبک ویب سائٹس اور انسائیکلو پیڈیا ز پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہیں دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ جسے ہم بڑے عرصے سے تاشقند لکھتے پڑھتے آئے ہیں وہ دراصل تاشکند ہے۔ تاشکند ملک کا دارالحکومت ہے اور یہیں 1965ء کی جنگ کے بعد پاک بھارت امن کانفرنس ہوئی تھی۔ اور بھی مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے پڑوسی ملک کا نام ہم کرغیرستان لیتے ہیں، وہ دراصل قرقیزستان ہے یعنی بڑا قاف دو بار آتا ہے اور غین تو آتا ہی نہیں۔ یہ غین دراصل انگریزی نام کرگیزستان کے گاف سے لیا گیا ہے جسے ہم نے غین کر دیا ہے۔ انگریز اور امریکی افغانستان کو افگانستان بولتے ہیں۔ 
شنگھائی کانفرنس کی جو تصویریں آئی ہیں، انہوں نے بہتوں کے دل دکھائے ہیں۔ خاص طور سے وہ تصویر جس میں سارے سربراہان مملکت نے پاکستانی وزیر اعظم کو گھیر رکھا ہے (ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف نے باقی سب کو گھیر رکھا ہے۔ پھر وہ تصویر جس میں روس کے صدر پیوٹن نے گرم جوشی سے شہباز شریف کا ہاتھ دبا رکھا ہے۔ اس کے بعد ملاقات کی تصویر، پھر روس پاکستان لمبا چوڑا اعلامیہ۔ ہمارے ہاں کے دردمندوں نے چند روز پہلے یہ خبر بڑے باوثوق طریقے سے دی تھی کہ پیوٹن نے صاف کہہ دیا ہے، میں شہباز شریف سے ہاتھ تک ملانے کا روادار نہیں ہوں، ہاتھ ملانا کیا، ان کا منہ تک نہیں دیکھنا چاہتا۔ دردمندوں کو یہ تصویریں اور خبریں دیکھ کر جو ذہنی دھچکا لگا اور جس طرح ان کے جذبات شدید مجروح ہو کر قریب المرگ ہو گئے، اس پر قانونی کارروائی کرنے کا پورا جواز موجود ہے۔ 
____________
کانفرنس میں روس نے پاکستان کو گیس کی فراہمی کی پیشکش کی اور بتایا کہ ازبکستان اور افغانستان کے راستے پائپ لائن کا نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے ، اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 
یہ تو ٹھیک، لیکن روسی صدر نے ریلوے کے شعبے میں بھی پاکستان کو تعاون کرنے کی پیشکش کی۔ پتہ نہیں اس سے کیا مراد ہے۔ پاکستان کے اندر ریلوے نیٹ ورک کی بحالی اور ترقی یا روس تک ریل رابطہ جس کے لیے محض افغانستان کے اندر ریل بچھانی پڑے گی ، آگے تو سارا لمبا چوڑا جال پہلے ہی بچھا ہوا ہے جو یورپ اور چین تک پہنچا ہوا ہے۔ 
دونوں صورتوں میں ہمیں یہ پیشکش مسترد کر دینی چاہیے ۔ اس لیے کہ ہم تو پچھلے چار عشروں سے اپنے ریلوے نیٹ ورک سے نجات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو بھی حکومت آتی ہے، دوچار برانچ لائنیں بند کر دیتی ہے۔ سنی سنائی ہے کہ شہباز شریف نے عہدہ سنبھالا اور ریلوے کا اجلاس طلب کیا اور پوچھا کہ بتائو، کون کون سی برانچ لائنیں بند کرنی ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ حضور، اب کوئی بچی ہوئی ہے ہی نہیں، ایک دو رہ گئی تھیں، وہ شیخ رشید دور عمرانی میں بند کر گئے۔ یوں اس سعادت میں حصہ ڈالنے سے شہباز شریف محروم رہ گئے۔ 
تو روسی صدر کو بتا دینا چاہیے کہ ہمارے پاس پہلے ہی یہ ریلوے ٹریک، بچا کھچا ہی سہی ، مصیبت بنا ہوا ہے، ہم اور کیا کریں گے۔ رہی بات افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا کے ساتھ ریلوے رابطہ جوڑنے کی تو اس سے بھی معذرت کر لینی چاہیے کہ نواز شریف کو برطرف کئے جانے کی غیر مرئی فرد جرم میں ایک جرم اس بات کا بھی تھا۔ 
____________
بہرحال، شہباز شریف کو اس کانفرنس میں خوب عزت ملی اور اس کا ’’انٹرنیشنل امیج‘‘ بھی بڑھ کر شمشاد قد ہو گیا۔ اس بات پر حقیقی آزادی والے رنجیدہ اور باقی قوم ’’سہمیدہ‘‘ ہے۔ اس ’’سہاوٹ‘‘ کی وجہ ایک وہم ہے۔ یہ وہم کہ اس خوشی میں شہباز شریف آتے ہی بجلی کے ریٹ اور بڑھا دیں گے۔ میاں صاحب جب خوش ہوتے ہیں تو یہی کرتے ہیں اور جب اداس ہوتے ہیں تب بھی یہی کرتے ہیں۔ 
امیّد ہے یہ وہم غلط ثابت ہو گا۔ ورنہ دوسری صورت میں امیّد کو امیّد موہوم کا نام دینے کی گنجائش تو موجود ہے ہی۔ 
____________
خان صاحب ان دنوں پے درپے اپنے ماسٹر کارڈ اور ٹرمپ کارڈ استعمال کر کے حکومت کو پریشان کر رہے ہیں۔ تین دن میں تین کارڈ ایسے کھیلے کہ حکومت کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔ پہلا کارڈ، چیف صاحب کو توسیع دی جائے، دوسرا کارڈ ، میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی، تیسرا کارڈ کال دینے والا ہوں۔ 
اب چوتھے روز چوتھا ٹرمپ کارڈ استعمال کیا ہے۔ فرمایا ہے کہ حالات ایسے ہی رہے (کیسے؟) تو زیادہ دیر تک صبر نہیں کریں گے، پھر ہمارا پیمانہ صبر لبریز بھی ہو سکتا ہے۔ 
یعنی ابھی پیمانہ لبریز نہیں ہوا، تھوڑا وقت لگے گا۔ کتنا وقت، اس کا اندازہ انہوں نے نہیں بتایا۔ شاید اس لیے نہیں بتایا کہ ابھی لگایا ہی نہیں۔ ممکن ہے کل ہی لبریز ہو جائے، ممکن ہے چھلکتے چھلکتے اگلا اگست ستمبر آ جائے۔ 
____________
ہر پیمانہ صبر آخرکار لبریز ہو ہی جاتا ہے۔ ایک پرش کہ مہاپرش نہیں تھے لیکن خود کو مہا پرش سمجھ بیٹھے تھے، اپنے بیٹے کے لیے رشتہ لینے ایک ایسے پرش کے گھر جا پہنچے جو واقعی میں مہا پرش تھا۔ 
مہا پرش نے ان کا خیرمقدم کیا اور مدعا پوچھا۔ انہوں نے فرمائش کی تو مہا پرش نے ان پرش کی جو مہا پرش نہیں تھے، دھلائی اور ٹھکائی شروع کر دی اور کرتے ہی چلے گئے جب ٹھڈے تھپڑ لاتیں مار مار کر تھک گئے تو اٹھا کر انہیں باہر گلی میں لے جا کر پھینک دیا۔ اب تو ان پرش کا جو مہا پرش نہیں تھے، پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور بے ساختہ ’’کال‘‘ دیدی کہ اچھا تو جناب، ہم پھر آپ کی طرف سے ’’ناں‘‘ ہی سمجھیں؟۔
پیمانہ صبر لبریز ہونے کی نوبت نہیں آنی چاہیے، اس واقعے سے یہ سبق ملا۔ 
____________
ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر ہے کہ کئی محاذوں سے پسپا ہوئی بھاگتی روسی فوج پر یوکرائنی دستوں نے دبائو بڑھا دیا ہے اور ان پر مسلسل حملے کر رہی ہے۔ یعنی یوکرائنی فوج شاہ مدار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ 
پچھلے ہفتے روسی فوج تین چار محاذوں سے بری طرح پسپا ہوئی تھی۔ روس نے کہا تھا کہ ہم پسپا نہیں ہوئے، صرف علاقے خالی کئے ہیں۔ یعنی ہم فیل نہیں ہوئے، بس یہ کہ پاس نہیں ہو سکے۔ جن علاقوں سے روس پسپا ہوا ان میں ڈوبناس کا محاذ زیادہ قابل ذکر ہے۔ ایک ہفتے کی جنگ میں یوکرائن نے اپنا چھینا ہوا 8 ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ واپس حاصل کیا ہے اور روسی فوج مسلسل بھاگ رہی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار نے لکھا ہے کہ روسی فوج کو بھاری شکست ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں یوکرائنی چھاپہ ماروں نے کریمیا میں گھس کر روس کا ایک اہم دفاعی اڈہ اڑا دیا۔ روس کو اس پر بہت تشویش ہوئی کہ چھاپہ ماروں نے اس کا مضبوط دفاعی حصار کیسے توڑ ڈالا۔ 
یوکرائن کی جنگ ابھی چلتی رہے گی۔ روس محض پرش ہے لیکن خود کو مہا پرش منوانے پرتلا ہے۔ کہیں رہی سہی ’’پرشیت ‘‘ بھی ہاتھ سے جاتی نہ رہے 
____________

epaper

ای پیپر-دی نیشن