تاریخ کے اوراق
تاریخ خواتین کے اعلیٰ ترین کارناموں سے بھری پڑی ہے، جہاں مرد نے ہر جگہ حکمرانی اور طاقت کی تاریخ رقم کی وہاں عورت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی، ملکہ الزبتھ کی موت نے کئی ملکاﺅں کی یاد تازہ کردی، 1187ءمیں بیت المقدس پر ایک ایک مختصر محاصرے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی حکومت قائم ہوئی یہ جگہ چار نسلوں تک مسیحیوں کے زیر قبضہ رہی تھی۔ عیسائیوں کی آبادی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ہر دس شہریوں میں سے ایک مسیحی تھا۔ بیت المقدس کا دفاع ایک غیر متوقع مگر تین طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے ممکن ہوپایا تھا۔ ان تین میں سے ایک بیت المقدس کی ملکہ سبیلا تھی۔ باقی دو طاقتوں کے ساتھ ساتھ سبیلہ نے بھی تمام مشکلات کے خلاف شہر کا مضبوط دفاع تشکیل دیا تھا۔ اگرچہ باقی کرداروں کی طرح ملکہ سبیلہ بھی بعض لوگوں کے بغض کا شکار رہی جنہوں نے اس پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے حتیٰ کہ اس کے کردار پر سوالات بھی ا±ٹھائے مگر اس خاتون کے کردار کو وسط لاطینی تاریخ میں محفوظ کیا گیا ہے ملکہ سبیلہ کے پاس اہم ترین اختیارات تھے۔ پھر ہم سلطنت عثمانیہ پر نظر دوڑائیں تو خواتین کے نہایت اہم کردار نظر آتے ہیں۔ 1603ءکی بات ہے یونان کے گاﺅں سے سلطان کے لئے تحفے میں ایک کم عمر کمزور سی لڑکی کو اغواءکرکے لایا گیا تھا۔ جو سطان کی دادی کے پاﺅں میں گڑ گڑا کر رحم کی اپیل کررہی تھی کہ اسے اس کے گھر جانے دیا جائے لیکن اس کی یہ خواہش نا ممکن تھی۔ اب اسے اسی حرم میںرہنا تھا، یہی یہاں کا اصول اور اٹل فیصلہ تھا۔ یہی کنیز بعد میں محل کے تمام اختیارات کی مالکہ بھی تھی اور ملکہ بھی تھی۔ عثمانیہ دور کی ان ملکاﺅں کا زمانہ طاقتور ترین ملکاﺅں کا دور کہلاتا ہے۔ جن میں انگلینڈ کی الزبتھ اول اور فرانس کی کیتھرین شامل ہیں۔ عثمانیہ دور کی ان خواتین کو پورے شاہی پروٹوکول کے ساتھ محل میں رکھا گیا۔ جن کے شاہی خاندانوں سے برابری کی سطح پر پوری شاہی آداب کے ساتھ خط وکتابت بھی ہوئی۔ انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ نے صفیہ سلطان کو سنہ 1593ءمیں تحفے میں اپنا پورٹریٹ بھی بھیجا تھا۔ اس طرح مصر کی حسین وجمیل ملکہ قلوپطرہ ہفتم ہے اس زمانے میں ایک عورت کا حکمران ہونا زیادہ اچھا نہ سمجھا جاتا تھا۔ لہذاٰ بڑی ہونے کے باوجود اسے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر تخت سنبھالنا پڑا۔ لیکن جلد ہی قصرِ شاہی دودھڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ قلوپطرہ کا حامی دھڑا کمزور نکلا جس کی وجہ سے اسے جلا وطن ہونا پڑا لیکن بہت جلد قلوپطرہ شام سے ایک فوج لے کر مصر میں داخل ہوگئی۔ سیزر کے ساتھ مل کر ملکہ قلوپطرہ نے بے شمار فتوحات کیں اور اپنے دشمنوں کا صفایا بھی کردیا۔ قلوپطرہ کے حالات زندگی کی کہانی کافی طویل ہے۔ اپنی39سالہ مختصر زندگی میں بے پناہ شہرت کمانے والی قلوپطرہ نے تاریخ میں وہ اہمیت حاصل کرلی ہے جو کم ہی خوش نصیبوں کو ملا کرتی ہے۔
مغلیہ تاریخ توملکاﺅں کی تاریخ سے بھی بھری پڑی ہے۔ جن میں بابر کی ملکائیں، جہانگیر کی ملکائیں، ہمایوں کی ملکائیں، شاہ جہاں کی ملکائیں اور اورنگ زیب کی ملکائیں وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ ہر خطہ زمین پر حکمرانی کرنے والے بادشاہوں کی ملکاﺅں نے نہ صرف ان کی زندگیوں میں اہم کردار ادا کیا بلکہ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا اور محلاتی سازشوںمیں نمایاں رہیں۔ تاریخ ہمیشہ پراسرار اور عجیب وغریب واقعات کا تسلسل معلوم ہوتی ہے۔ لیکن گردش دوراں نے نجانے کیسے کیسے مناظر اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں یہ طلسماتی کہانیاں نہ صرف کتابوں کے اوراق کی زینت ہیں بلکہ ہر قاری کے دل کو چھو جانے والی حقیقی داستانیں بھی ہیں، بادشاہوں اور ملکاﺅں کے اس طلسم کدے اس پرانی روایت کو صدیوں تک نبھانے کا سہرا بے شک برطانیہ کے سرجاتا ہے۔ آج بھی وہاں روایتی شاہی خاندان موجود ہے، ملکہ الزبتھ جو حال ہی میں96برس کی عمر میں انتقال کرگئیں شاہی تخت پر لگ بھگ70سال تک براجمان رہیں۔
ملکہ الزبتھ نے فروری1952ءمیں والد کی وفات کے بعد محض 26برس کی عمر میں تخت سنبھالا تھا۔ یہ برطانیہ میں سب سے زیادہ طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی خاتون بنیں۔ اگرچہ وہ کچھ عرصہ سے علیل تھیں لیکن دوروز قبل ہی ان کو برطانیہ کے نئے وزیراعظم کی تعیناتی پر دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ ایک خوش طبع، نفیس اور رحم دل خاتون کے طور پر دنیا بھر میں جانی جاتی تھیں۔ وہ اعلیٰ حسِ مزاح کی مالک بھی تھیں۔ رابرٹ لیسی ملکہ کی حسِ مزاح کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اکثر اپنا مذاق بھی ا±ڑا لیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی سیاستدانوں اور ٹی وی کرداروں کی بھی بخوبی نقل کرتیں۔ ایک بار ایک سیکورٹی اہلکار کے ساتھ برسات میں چہل قدمی کر رہی تھیں کہ کچھ امریکی سیاحوں سے ملاقات ہوئی۔ سیاحوں نے برساتی کپڑوں میں ملکہ کو نہیں پہچانا اور انہی سے سوال کیا کہ آپ کبھی ملکہ سے ملی ہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ " نہیں" اور اپنے سیکورٹی اہلکار کی طرف اشارہ کرکے کہا "مگر یہ ملے ہیں"۔