چپ کا راز
جانے کب سے درد کی گہری کالی چادر کی بکل مار کر یہ چپ میرے دل کی دہلیز پر ان بیٹھی ہے ،میں اسے دیکھتی ہوں محسوس کرتی ہوں مگر اس کے قریب جانے سے کتراتی ہوں مگر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی اس بکل میں چھپا لیتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے کبھی شب مہتاب میں کوئی کالی بدلی کا جادو چاند کی کرنوں کو معدوم کرتا ہوا اس کی نورانیت پر اپنی کالی چھایا ڈال کر اسے بھی اندھیروں میں ڈبو دیتا ہے ،پہلے پہل تو میں بھی گھبرا جایا کرتی تھی جب وہ میرا ہاتھ تھامے میرے ساتھ چلنے لگتی تو مجھے اُلجھن ہونے لگتی میں اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے چھڑانے کی ناکام سعی کرتی اور روہانسی ہو جاتی تب وہ میرا ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیتی اور التجا کرتی کہ مجھے خود سے جُدا نہ کرو اپنے ساتھ رہنے دو میں ایک سہیلی کی طرح تمہاری ہمراز دمساز ہوں مجھے محسوس کر کے مجھ سے دوستی کر کے دیکھو میں اس کی نگاہوں میں دیکھتی تو وہ مجھے سچی لگتی اس کی آنکھوں میں سچائی کی وہ چمک اور اس کے ہونٹوں پر خلوص بھری مسکراہٹ نظر آتی تو میں پسیج جاتی ،اور اس کا ہاتھ پکڑنے لگتی روز اس سے ملتی اور اس کے وجود کا احساس میری ذات کی رگ و پے میں اُترتا چلا گیا۔ وہ گھنٹوں میرے ساتھ رہتی اور پھر مجھے اس سے محبت ہونے لگی جیسے ایک دوست کی سچی دوستی جیسے پاک محبّت ،اور پھر مجھے یہ ادراک ہوا کے وہ اور میں لازم و ملزوم ہو گئے ہیں پھر ایک دن وہ مجھے شعور کے ایک دروازے پر لے گئی اور اس کا دروازہ کھول کر کہنے لگی جاو¿ اس کے اندر داخل ہو جاو¿ میں یکدم گھبرا کر بولی میں اکیلی کیسے جاو¿ں وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی میں حیران ہو کر اس کو دیکھنے لگی وہ اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں تب وہ میرے گلے لگ گئی اور پھر مجھے اس دروازے کی طرف دھکیل کر بولی جاو¿ دھندکے اس پار بھی جا کر دیکھو تمہارے وجدان کی روشنیوں میں اضافے کے لئے یہ جدائی بہت ضروری ہے۔ میں اس پار سے اس پار کے سفر میں تمہاری ہمراہی نہیں ہوں مگر اس دور کی دربان بن کر یہیں بیٹھی تمہاری منتظر رہونگی تم جب بھی واپس آو¿ گی مجھے یہاں بیٹھی پاو¿ گی تب تک تمہیں اس پار سے اس پار تک کا سفر مبارک ہو،یہ کہہ کر اس نے مجھے اس پار دھکیل کر در بند کر دیا ۔میں حیرت کدے کو دیکھ رہی تھی بالکل ایسے ہی جیسے کوئی گھپ اندھیرے میں یکدم تیز روشنی کے آ جانے سے کچھ بھی دیکھ نہیں پاتا مگر میری سماعتیں عجیب سے بے ہنگم شور سے آشنا ہو رہی تھیں، میں حیران و پریشان گنبد بے در کی گمشدہ صدا کی طرح یہاں وہاں بھٹکنے لگی ،جہاں بے ہنگم آوازوں کے شور نے میری سماعتوں کو بے جان اور میری بصارتوں کو نڈھال کر دیا تھا، مجھے لگا کہ میں اس شور کا حصہ بن کر خود اپنی ذات سے بچھڑ کر اپنے وجود سے بیزار ہو جاو¿ں گی اور خود سے بھی بچھڑ جاو¿ں گی میں چیخنے لگی مگر میری آواز کا دم شور میں گھٹ گیا۔ تبھی میں نے بے اختیار ان راہوں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ میرا سفر اور تلاش ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی کبھی میں وجود کو سنبھالتی تو کبھی ذات میں امنڈتے شور سے نبردآزما ہوتی تو کبھی روح کی چیخ و پکار کو دبانے کی کوشش کرتی اور پھر بالآخر مجھے وہ در نظر آیا میں دوڑتی ہوئی اس در میں داخل ہوئی تو وہ مجھے وہیں بیٹھی نظر آئی گویا میرے وجود و ذات میں روشنی بھرنے لگی۔ میں دوڑتے ہوئے اس در کو پار کر کے اس سے جا کر لپٹ گئی۔ مجھے علم نہیں تھا کہ میں زار زار رو رہی تھی اور وہ مجھے دلاسے دے رہی تھی کہ میں تمہارے پاس ہوں تمہارے ساتھ ہوں مگر میں اس کی کب سن رہی تھی بس اس کو یہی کہے جا رہی تھی اب مجھے کبھی خود سے دور نہ کرنا اور پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گئی وہ بھی میرے پاس بیٹھ گئی مگر اب کی بار اس نے میرا ہاتھ نہیں تھاما میں نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا جیسے کوئی بچہ ہجوم میں کھونے کے ڈر سے ماں کا ہاتھ تھام لیتا ہے، وہ ہولے سے مسکرائی ، مجھے اسی لمحے احساس ہوا شعور ملا کہ تنہائی کا ہاتھ پکڑ کر چلنے میں انسان گیان و دھیان کی کن راہوں کا مسافر بن جاتا ہے جہاں سے واپس جانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ جہالت کی بدنما آوازوں کے بے ہنگم شور کو برداشت کرنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔ چپ کی بکل مارنے کے بعد اندھیرا خود بخود روشنی میں ڈھل جاتا ہے۔
آگاہی کے جگنوﺅں کو
کھوجنے کے لئے
چپ کے جنگل میں بھٹکنا پڑتا ہے
احساس کے دریچوں کی
روشنی کے لئے روشنی کو پانے کے لئے اندھیروں کوسہنا پڑتا ہے
دل میں بسی خاموشی اوڑھ کر
اغراض کے شور و غل سے بچنا پڑتا ہے
کاسہ¿ درد کو اٹھا کر
روح کو تنہائی کے لمحوں سے گزرنا پڑتا ہے