بگ برادر،بگ باس اور ہمارا تماشا
کراس کلچر یعنی ثقافت کا تبادلہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ اس سے دوسروں کی قومیتوں کی اقدار وروایات اور تہذیب کو سمجھا جاسکے اور اس لحاظ سے بھی قابل ستا ئیش ہے کہ ہر معاشرہ کے عمدہ خصائل اور طور طریقے دنیا بھر میں پھلائے جا سکےں لیکن یہی کراس کلچر اتنا ہی نقصان دہ اور خطر ناک ہے جب دوسرے لوگوں کی ایسی اقدار یا روایات جو خرافات سے اٹی ہوتی ہوں اور انہیں پروان چڑھا کر غیر قوموں کی نسلوں کو برباد کر دیا جاتا ہے۔
میڈیا نے دنیا کو گلوبل ویلج بناکر کر اس کلچر کوفروغ دینے یا مسلط کرنے کے عمل کو بہت آسان کر دیا ہے اور جب سے گلوبلائزیشن کے عمل میں ڈہجیلٹلائزیشن کا عنصر شامل ہوا ہے اس میںمزید تیزی اور رد عمل دیکھنے میں مل رہا ہے لیکن مجموعی طور پر یہ کراس کلچر اسلامی معاشرہ کے لئے اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے جتنا کہ دوسری تہذیبوں کے لئے خود۔اسے ثقافتی یلغار کہہ لیں یا ثقافتی تبادلہ کہہ لیں بہر حال یہ باہمی تبادلہ سب اقوام کے لئے چیلنجنگ صورتحال پیدا کر چکا ہے ۔بالخصوص اہل اسلام کے لئے کہ اپنی نسلوں کو اغیار کی غیر اخلاقی شورشوں سے کیسے بچایا جائے۔ اس ضمن میں پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو سمجھ نہیں آتی کہ اتنے وسیع موضوع کو کیسے سمیٹا جائے اور کس پر بات کی جائے اور کس پر بات نہ کی جائے۔
ویسے تو وطن عزیز میں ٹرینڈ ز،رجحان یا فیشن کے نام پر کاپی پیسٹ کا عمل جاری رہتا ہے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار قوم پر مرتب ہونے والے نتائج کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نوٹ کمانے کے چکر میں ان اقدار کو رائج کرنے میں دیر نہیں لگاتا اور یہ پہلو انتہائی افسوناک اور قابل فکر ہے ان دنو ں پاکستان ایک ٹی وی شو جوکہ بھارتی ٹی وی شو” بگ باس“ کا چربہ ہے منظم لابنگ کے تحت لانچ کر دیا گیا ہے ”تماشا“ نامی اس پروگرام میں اسلامی اقدار اور شعائر کے منافی ہر رنگ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس پروگرام کا فارمیٹ ہے بھارتی پروگرام” بگ باس“ بھی جرمن ٹی وی شو” بگ برادر “کا چربہ ہے جسے 1999ءمیں نیدر لینڈ میںڈچ یعنی جرمن زبان میں ٹی وی پر نشر کیا گیا۔
اس پروگرام کے خالق جان ڈی مول نے انگریزی ادب کے مشہور ناول نگار جارج آرو یل کے ناول” نائنٹین ایٹی فور ©“سے متاثر ہو کر بنایا تھا۔ فنون لطیفہ ہمیشہ اپنی مٹی اور اقدار سے ہی جڑا ہوتا ہے جب آپ اپنے ڈرامے ،فلمیں، موسیقی یا دیگرپروگرام کا رنگ چڑھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اپنی نسل کوآدھے تیتر اور آدھے بیٹر بنائیں گے ”بگ برادر “بظاہر تو آپکو ٹی وی شو نظر آتا ہے لیکن اس کا لوگو ایک آنکھ کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ فتنہ دجال سے منسوب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسے سینڈیکیٹڈ فرنچائز پروگرام کے طور پر دنیا کے بہت سے ممالک میں اسی لوگو کے تحت بنایا اور چلایا جا رہا ہے جس میں مد مقابل شرکاءعام لوگ نہیں بلکہ مشہور نامور سلیبرٹیز ہوتے ہیں جن کی تعداد بارہ سے پندرہ تک ہوتی ہے ۔انہیں ایک خاص تیار کردہ گھر میں رہنا ہوتا ہے جس کا رابطہ بیرونی دنیا سے کٹا ہوا ہوتا ہے اور عارضی گھر کے مکین کی تمام حرکات و سکنات کو کیمروں کے ذریعہ مسلسل واچ کیا جاتا ہے ماسوائے واش روم کے ہر جگہ کیمرے نصب ہوتے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ انکے گلوں میں لٹکے ٹرانسمیٹر اور مایئکس کے ذریعہ انکی معمولی سی سرگوشی بھی ریکارڈ کی جاتی ہے۔ اس سب کا مقصد تمام مشہور ممبران کے انفرادی رویوں کو جن کو پہلے لوگ اتنی قریب سے نہیں جانتے سامنے لانا ہوتا ہے۔
اہم بات یہ کہ اس پروگرام کے شرکاءمخلوط مرد وزن ہوتے ہیں حیرت اس امر کی ہے ملک میں اس لچر قسم کے پروگرام نشر کرنے کی اجازت ہی کیوں دی گئی ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں محر م، نا محرم کی عظیم فقید المثال روایت اور اصول قائم ہیں وہاں مادر پدر آزادی کی بنیاد پر عوامی سطح پر دیکھا جانے والا پروگرام اتنا اہم کیوں ہے ؟جس میں ایک چھت کے نیچے درجن بھر میل فی میل ہر طرح کے لباس میں بنا کسی رشتہ کے نام پر مخلوط زندگی بسرکریں جہاں مصنوعی اور عارضی ریلیشن شپ کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے جہاں مقابلے کے نام پر نجی زندگی کو ایکسپوز کیا جائے نفرت اور پیار کے نئے نئے غیر اخلاقی پیرا میٹر قائم کئے جائیں اور گالم گلوچ بے دھڑک استعمال کی جائے اور اس سب سے بے ہودہ اور بے مقصد پروگرام کے شرکا کو مسلسل ایک آنکھ مانیٹر کر رہی ہو اور بار بار یہ باور کرایا جائے کہ نامعلوم باس آپکو دیکھ رہے ہیں اور مقید گھر میں رہنے والے ہاوس میٹس کو باس کی جانب سے طے کئے جانے والے اصول ضابطوں اور پابندیوں کو اپنانے پر مجبور کرتا ہے اس غیر مرئی باس کے کنٹڑول میں چلنے والے گھر کے باسیوں کو مسلسل واچ آ ٓﺅٹ کرنا اور اقدار سے کھلی چھٹی دینا اور انتہائی پرائیویٹ لائف کو پبلک کرنے کا مقصد ہے کیا۔
اگر اس گھر کے باسی ممبران سے کوئی ذاتی طور پر پوچھے کہ وہ بھی اتنے ہی آزاد خیال ہیں کہ اپنے بھائی یا بہن کو ایسے مادر پدر آزاد پروگرام کا حصہ بننے دیا جائے تو ان کا جواب نفی میں ہو گاکیا معاشرہ کی ٹوٹ پھوٹ کو بڑھاوا دینے والے پاکستانی ڈرامے ہی کافی نہ تھے کہ اس جیسے عجیب تماشا پروگرام کو رچایا گیاپاکستان پہلا اسلامی جمہوریہ ملک ہے جہاںایسا بےہودہ اور گمراہ کن پروگرام پیش کیا جارہا ہے جس کا مرکزی خیال مخا لف جنس سے ممنوع تعلقات استوار کر نے کے گردگھومتا ہے ۔اس سے بڑھ کر ہمارا اخلاقی زوال کیا ہو گا؟
٭....٭....٭