موجودہ اور سابق حکمرانوں کے نام
کسی بھی ملک کا آئین، ملک کے منتخب نمائندے اپنے ملکی و قومی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر متفقہ رائے سے منظور کرتے ہیں۔ آئین کی رُوسے پارلیمنٹ سے لیکر ملکی اداروں تک کو اس امر کا پابند کیا جاتا ہے جو اُن کے عوام کے لیے بھی قابلِ قبول ہو۔ قیامِ پاکستان کے بعد وطنِ خداداد کم و بیش نو سال تک بغیر آئین کے ہی امور مملکت چلانے پر گامزن رہا۔ 1956ءاور 1962ءکے دساتیر اگرچہ روبہ عمل رہے، لیکن منتخب اراکین پارلیمنٹ حقیقی معنوں میں جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ اس دوران ملک میں اقتدار کی رسہ کشی جمہوری اور غیر جمہوری ایوانوں کی نافہمیوں کی بنا پر آئینی استحکام میں رکاوٹ بنتی رہی۔ جس کی وجہ سے آمرانہ دورِ اقتدار بھی جمہوری اقدار کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوا۔ نشیب و فراز کا یہ جمہوری و غیر جمہوری سلسلہ 1971ءمیں وطنِ عزیز کے مشرقی اور مغربی حصہ میں کم و بیش تئیس برس کی ناچاقیوں ، کی بدولت راہیں جدا کرنے کا باعث بنا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جمہوری بنیادوں اور قائد اعظم، ان کے ر فقائے کار کی جہد مسلسل سے معرضِ وجود میں آیا لہٰذا اس کی بقاءو سالمیت اسی کی بدولت ہی ممکن تھی، جو نہ ہو سکی۔ بالآخر موجودہ آئین 14 اگست 1973ءکو اس وقت کے وزیر اعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور اراکین پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ 1973ءسے لیکر آج تک، جن میں مختلف حکمرانوں نے یکے بعد دیگرے اقتدار سنبھالا کیا اُن میں سے کسی ایک نے بھی اپنے اختیارات و مراعات سے ہٹ کر عوام کے فراہم کردہ آئینی حقوق کو کماحقہ، پورا کیا۔ قطعاً نہیں۔ زیرنظر کتاب ”آئین کا مقدمہ“ کے مصنف سینئر صحافی ،ادیب و شاعرجناب سعید آسی صاحب نے کتاب کے مقدمہ کے عین مطابق اپنے محررہ بے شمار مختلف عنوانات سے کم و بیش تمام مقتدر طبقات کی گوشمالی کی ہے اوران کوتاہیوں کا ذکر کیا ہے، جن کا تعلق خود حکمرانوں سے ہے لیکن عوام کے بنیادی حقوق سے دانستہ یا نادانستہ حکمرانوں نے لغزشیں کیں، اس تناظر میں، میں نے سوچا کہ کیوں نہ جناب آسی صاحب کے ”آئین کا مقدمہ“ کو حکمرانوں کے لیے چارج شیٹ بنا کر اُن کا مواخذہ کیا جائے اور مقدمہ براہِ راست حکمرانوں پر دائر کیا جائے اور یہ بات قارئین پر چھوڑ دی جائے کہ وہ بھی ان حقائق کو پیشِ نظر رکھیں، ان کا تعلق خواہ کسی جماعت سے کیوں نہ ہو۔ آئینی و ملکی مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔جناب آسی صاحب کی کم و بیش نصف صدی پر محیط قانونی، عدالتی رپورٹنگ ، صحافت اور پھر اس تناظر میں روزانہ لکھنے کی مہارت ، بصیرت ، اور معتدل تنقید و اصلاح ایک کاردارد ہے
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
مقدمات بنام مقتداران ، حاملین اختیارات، مفادات۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے آئین کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کی فراہمی سے دانستہ یا نادانستہ چشم پوشی کی لیکن آپ سب سابق و موجودہ حکمران اس بات کی وضاحت کریں گے کہ آئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا واضح اقرار موجود ہے، کیا آپ نے عوام کے منتخب کردہ نمائندگان کی حیثیت سے بصدقِ دل اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو مطلق مانا؟۔ آئین میں کہاں درج ہے کہ قومی ، صوبائی اسمبلیز کے نمائندگان کو تعمیراتی فنڈز مہیا کیے جائیں جبکہ مقننہ کے اراکین کا اصلی و بنیادی فریضہ صرف قانون سازی ہے۔ جب کہ آپ سب نے قانون سازی کم اور قارون سازی زیادہ کی ہے۔ اسی طرح اراکین قومی ، صوبائی اسمبلیز کو دورانِ سفر، دورانِ اجلاس پارلیمنٹ ہر قسم کی مالی و سفری سہولتیں فراہم کی جائیں جبکہ عوام کے لیے عام حالت میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ پاکستان کی تشکیل ایسے حالات میں ہوئی کہ مسلمان اپنے چاروں طرف دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے لیکن ہمارے اکثر حکمرانوں نے ملک کی نظریاتی سرحدوں کو مستحکم کرنے کی بجائے ہمارے ازلی دشمن خاص کر بھارت سے اپنے خاندانی اور معاشی مفادات کو ترجیح دی۔ہمارا قریب ترین دور حکومت، سابق وزیر اعظم، موجودہ ممبر قومی اسمبلی جناب عمران خان کا ہے۔ جنہوں نے عوام کے بے پناہ معاشی و ملکی مسائل کا اس موثرانداز سے متواتر اظہار کیا ،کہ ہمارے بھولے بھالے عوام ان پر بھرو سہ کر بیٹھے۔ سیاستدانوں، حکمرانوں پر فردِ جرم۔ہمارے نظام عدل میں مقدمات کی تکمیل کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ مقدمات کا فیصلہ صادر کرنے سے پہلے متعلقہ عدالت ملزم موجود پر فرد جرم عائد کرتی ہے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ آج تک ہر ملزم نے صحتِ جرم سے انکار ہی کیا ہے۔ کبھی نہیں مانا کہ اس سے یہ فعل سرزد ہوا ہے۔ موجودہ سیاسی، عدالتی کھینچاتانی میں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے لہٰذا اس پیش بندی کے طور پر آخری فرد جرم جو تمام موجودہ اور سابق حکمرانوں پر عائد کرنا ہی ”آئین کا مقدمہ“ کے روح کے عین مطابق ہے۔ ”کہ آپ سب کو نہ کھانے، نہ کمانے اور نہ ہی لگانے کا فکر ہے۔ آپ میں سے کوئی بھی حکمران اس بات بلکہ الزام کو قبول کرنے پر تیار ہے، کہ آقائے نامدار سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ مبارک وسلم نے اپنے عوام کے حقوق کی نگہداشت کا فریضہ بہ احسن سرانجام دیا، کیا آپ سب نے اس راہِ عمل کو اپنایا، بالکل نہیں، خاص طور پر دعویدار ریاست مدینہ“
یارب نہ وہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے میری بات
دل اور دے ان کو، جو نہ د ے مجھ کو زباں اور