”کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی“
اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر اگرچہ بارشوں اور حالیہ سیلاب کے تھم جانے کی خبریں نظروںسے گزر رہی ہیں۔تاہم تصاویر اور ویڈیوز کی شراکت فیس بک، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دیگر صفحات پربدستور جاری ہے۔سیلاب زدہ علاقوں سے وابستہ ہر ویڈیو کی پہلی جھلک ہی اتنی روح فرسا ہے کہ باقی دیکھنے کا یارا نہیں رہتا۔
سیلاب نے نےک اور بد، کمزوراور طاقتور، امیر اور غریب ،مالک اور نوکر اورظالم اور مظلوم کے درمیان قطعاً کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا۔ جو بھی اس کے راستے میں آیا ،اُسے اپنے بے رحم تھپیڑوں،چنگھاڑتی ہوئی بھوکی لہروں اور غارنماگردابوں میںمسلتا اور گوندھتا ہوا بے نام سمتوں میںٍ بہا کر لے گیا۔نہ کسی کی جھونپڑی دیکھی، نہ مکان،نہ بنگلہ ،نہ دکان، نہ ہوٹل اور نہ ہی کوئی دیگر مستقر۔تناور درختوں کو ان کی جڑوں سمیت اُکھاڑ کر بل کھاتی ہوئی لہروں کے حوالے کر دیا ۔ بے زبان جانورکناروں پر کھڑے ویڈیو بنانے والوں کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتے، داد رسی کی ا پیل کرتے بہتے رہے۔ جوان، بوڑھے ، بچے ، عورتیں اور مرد پتھروں،جھاڑیوں سے اس آس پر چمٹے رہے کہ شاید کوئی غیبی ہاتھ آگے بڑھ کر انہیں موت کے منہ میں جانے سے بچا لے ۔ مگر بے بسی کے عالم میں ہمت اور حوصلے اپنی حد کو پہنچ کر جواب دیتے گئے۔ ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی ،پاﺅں پھسلتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب ”رزق ِآب “ہوتے گئے۔سیلاب پاکستان میں پہلی بار نہیں آیا اور نہ ہی بارشیںپہلی بار ہوئی ہیں۔ پھر ہمیں یہ فلسفہ بھی ازبر کراےا گیا ہے کہ ” جب بارش آتی ہے تو پانی آ ّتا ہے ، اور جب زیادہ بارش آ تی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے“۔ اور سچی بات ہے کہ جب زیادہ پانی آتا ہے تو سیلاب میںڈھل جاتا ہے۔لَہذا اس” پوسٹ ماڈرن“ فلسفہ کے پیروکار یہ اصول وضع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ” سیلاب امرِربیّ ہے اور اس معاملے میں سرکارِ وقت بے قصور و لاچار ہے۔“
تیزی سے بدلتی ہوئی موسمی اور فضائی ساخت سے متعلق ماحولیاتی ماہرین پیشگی معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں تاکہ اس تبدیلی سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ہم نہ صرف خاطر خواہ آگاہی حاصل کریںبلکہ اس تبدیلی کو اپنے لیے منافع بخش بنانے کے لیے ضروری اقدامات بھی کریں۔ اگرچہ پاکستان میں اس سے قبل بھی کئی تباہ کن سیلاب آچکے ہیں تا ہم اب کی بار نہ صرف سیلاب کی نوعیت مختلف ہے بلکہ تباہی کا حجم اور منظر کی ہولناکی بھی سوا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ ہم نے اس ضمن میں ماضی کے تجربوں اور ما حولیاتی ماہرین کی پیشگوئیوں سے کیا سبق سیکھا ہے اور اس سبق کا اطلاق ہمارے کون سے عمل سے مترشح ہے ؟ہر سانحے ےا تباہی کے بعد ہم مختلف مطالعاتی سروے کراتے ہیں تاکہ تباہی کی نوعیت اور حجم سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ جملہ وجوہ سے بھی آگاہی حاصل کر سکیں اور مستقبل میںایسی آفات کے تدارک یا ان سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سفارشات حاصل کریں۔ اگرچہ ہم نے قومی اور صوبائی سطح پرڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے محکمے بنا رکھے ہیں جو متاثرین کی بازےابی و بحالی کے ساتھ ساتھ اپنی سفارشات حکومتِ وقت تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ کیا ان سفارشات پر کبھی عمل ہوا، اگر ہوا تو کس حد تک ہوا، اور اس عمل کی بدولت کون سے اور کس طرح کے نقصان کا خاطر خواہ تدارک کرنے میں ہم کامیاب ٹھہرے؟ اگر ان سفارشات پر آج تک عمل نہیں ہو سکا تو اس کی کوئی دلیل بھی ہو گی ؟
مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہم سانحات و آفات کے تدارک ےا ان سے تحفظ کے انتظام و انصرام کی سنجیدہ نیّت ہی نہیں رکھتے۔اگر ہماری نیت میں کوئی ایسا ”فتور“ ہوتا تو ہم ”سیاسی غلاظتوں “ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ، کئی بار تاکیداµ دہرائی گئی سفارشات پرعمل کیلیے تیار دکھائی دیتے۔جن کے باعث ہنگامی حالات میں متعلقہ علاقوں کے عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہوتا اور جانی و مالی نقصان کم سے کم ہوتا۔کس کی شہ پر یا تعاون سے لوگ آبی گزرگاہوں اور دریا ﺅں کے پیٹوں میں کچے و پختہ گھر بنا کر اپنے بال بچوں اورمال مویشی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں؟ ہر سیلاب میں ان کا نقصان ہوتا ہے ۔ حکومتِ وقت کسی حد تک ان کے نقصان کی تلافی بھی کرتی ہے، مگر وہ اپنے” کرتوت “ کو سامنے لائے بغیر میڈیا پر آکر اپنی ”خود ساختہ“ بے بسی اور حکومتِ وقت کی ” لا پرواہی اور بے حسی “ پر ما تم کر کے ہر خاص و عام کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامےاب ہو جاتے ہیں ۔ ان کی حکومتِ وقت سے متعلق ”الزام تراشی©“ میں کسی حد تک وزن ہے۔ اگر سرکار ان کو آبی گزرگاہوں اور دریا کے پیٹ میں تعمیرات و آباد کاری سے آ ہنی ہاتھ سے روکتی تو نہ صرف یہ خود محفوظ رہتے بلکہ ان کی ہوس اور تجاوز پسندی سے وہ بے قصور لوگ بھی مامون رہتے جو پانی کو اس کا فطری راستہ نہ ملنے کی بنےاد پر ”زیرِ آب و عتاب“ آئے۔آبی گزرگاہوں پر بکھری ہوئی تعمیرات سے بات آگے نکل کر رہائشی کالونیوں کے قیام تک آ گئی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو دریائے راوی کے پار بند پر کھڑے ہو کرنظارہ کر لیں، محکمہ آبپاشی ےا ریونیو بورڈ کا ریکارڈ ملاحظہ فرما لیں، اوسان خطا ہو جائیں گے۔کیا یہ سب کچھ خود سے ہو رہا ہے ، کسی کی آشیرباد کا ثمر ہے ےا کسی دفتر سے ”نامے ہمارے نام آتے ہیں؟
جس نوعیت کی ماحولےاتی تبدیلیوں کی گونج چار سو سنائی دے رہی ہے، اگر ہم نے کانوں میں ” بُڑے “ ڈالے رکھے تو اگرچہ بین الاقوامی ادارے ہماری” مفلسی اور بے چارگی“ پر ترس کھا کرہماری”داد رسی تو شاید کرتے رہیں، مگر ہم شاید وطنِ عزیز کی معاشرتی اور زمینی ساخت کو کسی بڑے تغیر سے نہ روک سکیں۔ ایسی حالت کا سوچ کر سماعتوں میں بے اختیار منیرنیازی کی آواز گونجنے لگتی ہے۔
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن، کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی