قدرت اللہ شہاب اور شہاب نامہ
قسط نمبر ایک میں مَیں نے یہ بتایا تھا کہ شہاب میں افسرانہ خُوبُو بالکل نہیں تھی اور جہاں تک ممکن ہوتا تھا ادبا اور شعرا کی گزر اوقات کے لیے ان کی مدد کرتے تھے۔ یہ کام وہ انڈین سول سروس کے بڑے افسر کے طور پر بھی کیا کرتے تھے، ایوانِ صدر میں قیام کے دوران بھی کرتے رہے اور ریٹائر ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ ۲۴۹۱ءمیں ان کا تقرر بھاگل پور (صوبہ بہار) میں ہُوا۔ وہاں جو انتظامی مسائل پیش آئے ان کے لیے آپ کو ”شہاب نامہ“ سے رجوع کرنا ہوگا۔ اہلِ ادب سے ان کے لگاو¿ کو ظاہر کرنے کے لیے ایک دلچسپ واقعہ درج کر رہا ہوں لیکن کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے اپنے لفظوں میں تلخیص کرکے لکھنا ہی ممکن ہے۔
ایک مرتبہ شہاب سرکاری دورے پر گئے۔ ان دنوں بہار کے ایک شاعر شفق عماد پوری ادبی حلقوں میں خاصے معروف تھے۔ شہاب نے وہاں کے تھانیدار سے کہا کہ شفق کا اتاپتا معلوم کرے تاکہ وہ ان سے مل سکیں۔ تھانیدار نے نہ صرف ان کا پتا معلوم کیا بلکہ آدھی رات کو انھیں گھر سے اٹھا کر تھانے لے گئے۔ اگلے روز شہاب نے سرکاری مصروفیات سے فارغ ہو کر تھانیدار سے پوچھا کہ ان کا کچھ پتا چلا تو اس نے ایک سپاہی سے کہا ”سیخ سپھخ کو ترت حاضر کرو©“۔ چنانچہ چند سپاہی شاعر کو پکڑ کر لائے اور ایس ڈی او (شہاب) کے رو برو پیش کر دیا۔ ”شرم و ندامت کے مارے میراجی چاہتا تھا کہ ان سے آنکھیں چار کیے بغیر ہی وہاں سے فرار ہو جاو¿ں۔“ پھر انھیں جیپ میں بٹھا کر گھر لے گئے۔ بہت معذرت کے بعد خاطر تواضع کی اور اصل بات ان کے گوش گزار کی۔ جب شفق صاحب کو تھانیدار کی حماقت اور شہاب کی بے گناہی کا یقین ہو گیا تو انھوں نے مسکرا کر کہا: ”گنجے کے ناخنوں کی طرح اب تو یہ دعا بھی مانگنی چاہیے کہ خدا ایس ڈی او کو ادیب سے ملنے کا شوق نہ دے“۔ اے محترم قارئین! یہ تو فرمائیے کہ شفق عماد پوری سے قدرت اللہ شہاب کو کیا فائدہ اٹھانا تھا؟ یہ قدرت اللہ شہاب کا عمومی مزاج تھا ورنہ جھنگ کے مقامی اخباروں کے رپورٹر از قسمِ ایثار راعی اور بلال زبیری سے انھیں کیا لینا تھا۔ ان سے تعلقات صرف اس لیے رکھتے تھے کہ ان کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر ان کی مالی اعانت ہو سکے۔ میرے خیال میں رائٹرز گلڈ کی تشکیل کا بھی یہی مقصد تھا۔
”شہاب اور شہاب نامہ“ پر مزید روشنی ایک اور کتاب سے پڑتی ہے جسے محمد بشیر خالد (ایم۔بی۔خالد) نے لکھا ہے جس کا عنوان ”ایوانِ صدر میں سولہ سال“ ہے۔ خالد صاحب کی یہ کتاب پہلے ”نوائے وقت“ میں قسط وار چھپی اور بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بعد اقساط کو یکجا کرکے کتاب کی شکل دی گئی۔ قدرت اللہ شہاب گورنر جنرل/ صدر کے سیکرٹری تھے اور خالد صاحب شہاب کے سیکرٹری تھے لیکن خالد کی یہ کتاب بلا کسی رو رعایت لکھی گئی ہے اور مصنف کا خلوص نیت، حب الوطنی اور دیانت داری شروع سے آخر تک آشکار ہے۔ اگرچہ شہاب اور خالد کے نقطہ¿ نظر میں کہیں کہیں فرق بھی ظاہر ہوتا ہے خصوصاً خالد نے گورنر جنرل غلام محمد کا خاصہ مثبت امیج بنایا ہے جب کہ شہاب نامے میں یہ بہت حد تک منفی ہے لیکن مجموعی طور پر دونوں کے بیان کردہ تاثرات میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ خالد ایک باب بہ عنوان ”ایوب خان کا رفاہی فنڈ“ میں بیان کرتے ہیں کہ سابق صدر اسکندر مرزا نے صنعت کاروں، تاجروں اور زمینداروں سے خاصی رقم بٹور لی تھی تاکہ اگر الیکشن ہو تو ان کی ساختہ پرداختہ ریپبلکن پارٹی کو الیکشن جیتنے کے لیے دی جائے لیکن جنرل ایوب کے آنے کے بعد شہاب نے انھیں مشورہ دیا کہ یہ رقم یتیموں، بیواو¿ں اور غریب ادیبوں پر صرف کی جائے۔ شہاب صاحب نے اپنے طور پر ضلع انتظامیہ کے تعاون سے ضعیف و نادار ادیبوں اور صحافیوں کی فہرست مرتب کی۔ سب سے خط لکھ کر دریافت کیا گیا کہ انھیں یہ رقم قبول ہے یا نہیں۔ سب نے اس پیش کش کو قبول کر لیا۔ صرف مرزا محمود سرحدی نے انکار کیا اور جواب میں لکھا: ”اگر یہ وظیفہ حکومت کی طرف سے میری ادبی خدمت کا صلہ ہے تو میں نے ادب کی خدمت ملک کے لیے کی ہے حکومت کے لیے نہیں اور اگر یہ رقم میری غربت کی بنا پر عطا ہونے والی ہے تو میرے ملک میں مجھ سے زیادہ غریب لوگ موجود ہیں جو مجھ سے کہیں زیادہ امداد کے مستحق بھی ہیں اور خواہش مند بھی۔“
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ شہاب کو ادیبوں کی اعانت سے دلچسپی تھی نہ کہ حکومت کے لیے ان سے کسی قسم کا کام لینے کا ارادہ تھا۔
چند سال پہلے ایک کتاب ”شہاب بے نقاب“ شائع ہوئی تھی۔ اس میں شہاب کے خلاف کوئی خاص بات نہیں۔ وہی معمول کے الزامات یکجا کر دیے گئے ہیں جو مختلف حلقوں کی طرف سے ان پر لگائے جاتے رہے ہیں۔ یہ کالم گواہ ہے کہ میں نے کسی پر اس کے عقائد کے حوالے سے کبھی تنقید نہیں کی مگر بعض اوقات گرد ہٹا کر صاف شفاف تصویر دکھانی ضروری ہو جاتی ہے۔ اس کتاب کے مضمون نگاروں میں بیشتر تو اپنے ”احمدی“ ہونے کو کھلے عام تسلیم کرتے ہیں اور بعض ملفوف ہیں۔ چند ایک کسی دوسرے عقیدے کے بھی ہوں گے۔ جن لوگوں نے ”شہاب نامہ“ کو باریکی سے پڑھا ہے ان کو معلوم ہوگا کہ شہاب اس فرقے کے سخت مخالف ہیں اور مختلف مقامات پر انھوں نے اس کی وجوہ بھی تحریر کی ہیں۔ دراصل ایک بہت چھوٹی اقلیت کے لوگوں میں یہ خوف ہوتا ہے کہ اکثریت انھیں ختم کر دے گی اس لیے وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور ”امدادِ باہمی“ میں منہمک اور سرگرم رہتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایم بی خالد نے مذکورہ بالا کتاب میں ایک الگ باب ”ایوانِ صدر میں قادیانی“ کے زیر عنوان تحریر کیا ہے۔ اس کی تفصیلات بہت چشم کشا اور دلچسپ ہیں۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ان لوگوں نے ایوانِ صدر میں اپنے بہت سے ہم مسلک کس طرح جمع کیے، انھیں مرزا ناصر احمد اور سر ظفر اللہ کی کتنی اعانت حاصل تھی اور دیگر فوائد کے علاوہ انھوں نے کیسے کیسے طریقوں سے کروڑوں روپے بنائے جو آج کے اربوں/کھربوں کے برابر ہیں۔ ان کے راستے میں شہاب کئی بار رکاوٹ بن جاتے تھے اس لیے ”شہاب بے نقاب“ کی اشاعت کا مقصد بآسانی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس کتاب کے محولہ بالا باب کا ضرور مطالعہ کریں۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ تمام اقلیتوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے اور سب کوانصاف ملنا چاہیے۔ تاہم کسی ملک کے لوگوں کو خواہ ان کا تعلق کسی مسلک یا عقیدے سے ہو ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ ”شہاب نامہ“ اردو آپ بیتیوں میں دلچسپ ترین خود نوشت ہے۔ اسے بار بار پڑھا جا سکتا ہے۔ اسلوب منطقی اور استدلالی بھی ہے، افسانوی بھی ہے اور طنز و مزاح سے بھی مملو ہے۔ مجموعی طور پر بہت پُرلطف ہے۔ ظاہر ہے کوئی کتاب بھی ایسی نہیں ہوتی جس سے پوری طرح اتفاق کیا جا سکے۔ ”شہاب نامہ“ کی بھی یہی کیفیت ہے مجھے بھی اس سے کہیں کہیں اختلافات ہیں مگر یہ حقائق کے بیان کے ساتھ ادب کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے۔
( ختم شد)