معیشت اور مافیاز
حکومت کی جانب سے ملک میں معاشی استحکام کرنے امکاناتکے دعوے تو کیے جا رہے ہیں لیکن آئیایم ایف سے معاہدے کی بحالی کے باوجود حالات بے قابو ہوتے نظرآ رہے ہیں۔ڈالر کی قدر پاکستانی روپے کے مقابلے میں گزشتہ چند روز سے مسلسل اضافے کی جانب گامزن ہے۔انٹربینک میں ڈالر مزید مہنگا ہوکر 235 روپے پر فروخت ہو رہا ہے، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں بھی اضافے کا رجحان جاری ہے اور اس کی قیمت 241 کی بلند سطح جا پہنچی ہے۔ صرف اسی مہینے کی بات کر لیں تو،اس مہینے کی 16 تاریخ سے لے کر اب تک انٹربنک میں ڈالر کی قیمت میں 21.98 روپے اضافہ ہوا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 31 روپے بڑھ چکے ہیں۔
معیشت اور مالیاتی شعبے کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں موجودہ سیاسی ہلچل، سیلاب کی وجہ سے معیشت کی ابتر ہوتی صورتحال اور چند عالمی وجوہات کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں مستقبل قریب میں کسی کمی کا کوئی امکان نہیں۔ بیرونی فنانسنگ کے آنے سے کچھ دن تو ڈالر کی قیمت میں کمی ہو سکتی ہے لیکن مارکیٹ کے حالات کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافے کا امکان نہیں۔اس خوف ناک اضافہ کی وجہ درآمدات میں اضافے اور معاشی غیر یقینی کو بھی کہا جا رہا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح اگست 2022 میں بڑھ کر 27.3 فیصد ہوگئی جو کہ پچھلےسینتالیس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ابھی یہ مسائل ہی قابو میں نہیں آ رہے تھے کے سیلاب سے ہونے والی تباہی نے پہلے سے ہی جلتی آگ میں مزید ایندھن انڈیلنے کا کام کر دیا ہے۔ جو حالات نظر آ رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ سیلاب کے بعد ملک کی خوراک کی ضرورت کو بھی درآمدات سے پورا کیا جائے گا تو ایسی صورتحال میں تو پاکستانی روپے کے لیے حالات سازگار نہیں دکھائی دے رہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی منصوبہ بندی ویسے تو بالکل ٹھیک تھی۔ بے شک کافی کاروباری افراد اس فیصلے کے خلاف تھے کہ درآمدات بند نہیں کرنی چاہیئے لیکن اس کے علاوہ کو آپشن بھی نہیں نظر آتی کیونکہ عوام پر پہلے ہی بہت ٹیکس لگائے جا چکے ہیں، اس سے زیادہ لگے تو عوام کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ کسی بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں سب سے اہم رول تجارت کا ہوتا ہے۔اب ہمیں پاکستان میں ڈالر فلو بڑھانا تھا کیونکہ ہماری درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو چکی تھی، یعنی ہم صرف چیزیں خرید ہی رہے تھے، بیچتے نہیں تھے۔مالی سال 2021 میں پاکستان نے 25 بلین ڈالر کی برآمدات کی تھی جب کہ ہماری درآمدات 56 بلین ڈالر تھی۔ اب جب چیزیں بکے گی نہیں تو ملک میں ڈالر کیسے آئے گا ؟ اور اگر چیزیں خریدتے جائیں گے تو روپیہ اپنی قدر کھو دے گا اور جو پاکستان میں ڈالر موجود ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گیں۔ لہذا یہ منصوبہ درست تھا لیکن یہ کسی کہ ذہن میں نہیں تھا کہ ہمیں ایک دم سیلاب جیسی مشکل قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے بہت زیادہ تباہی مچائی ہے، جس سے مہنگائی شدت اختیار کر گئی ہے ، اس کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ سیلاب نے بھی معیشت کو حد سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اب پاکستان بھی ایک قسم کا برمودا تکون بن چکا ہے، ایک سائڈپر پہلے سے ہی خراب معاشی حالات ہیں، دوسری سائڈپر سیلاب جب کہ تیسری طرف غیر معمولی سیاسی حالات ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں سے ہم غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بار بار پاکستان میں آنے اور کاروبار کرنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن ابھی تک اس کا ہمیں بہت کم فائدہ ہوا ہے۔ عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے کے لیے پہلی آپشن نہیں۔ پہلی چیز تو کاروباری حوالے سے ہمارے قوانین انتہائی غیر دوستانہ ہیں۔ یہ بات تو آپ نے کئی بار پاکستان کی بڑی کاروبای شخصیاتسے بھی سنی ہوگی کہ پاکستان “بزنس فریڈلی” ملک نہیں ہے اور وجہ یہی ہوتی ہے کہ کوئیادارہ اپنا کام ایمانداری سے سرانجام دینے کو تیار نہیں۔ دوسرا اگر آپ کاروبار شروع کر بھی دیتے ہیں تو آپ کو کسی قسم کی بزنس سیکیورٹی نہیں دی جاتی۔
حکومت اس وقت معاشی بحالی اور سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے میں لگی ہوئی ہے، جس سے منافع خور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس طرح پتا نہیں کتنے لوگ ناجائز منافع کمانے کے لیے مارکیٹ کے حالات خراب کرتے ہیں اور پھر آخر میں پسنا عوام نے ہی پڑتا ہے۔ پاکستان ابتقریباً ہائپر انفلیشن کا شکار ہو چکا ہے اور اب مختلف مافیاز ہی ملکی فیصلے کر رہے ہیں۔