بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین کے خلاف توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کا جواب مسترد کرتے ہوئے 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ خان صاحب سخت مشکل میں پھنس گئے ہیں کیونکہ انھوں نے معافی کی سہولت سے کوئی فائدہ نہیںاٹھایا واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف خاتون جج محترمہ زیبا چودھری کو سرعام دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5رکنی بنچ نے متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جس توہین عدالت کا ارتکاب عمران خان نے کیا ہے عدالت کے لیے وہ بڑی سنجیدہ ہے جبکہ عدالت جواب سے مطمئن نہیں ہے۔
قارئین کرام !جب ہنیری پنجم نے انگلینڈ میں اقتدار سنبھالا تو مختلف ممالک سے تحائف اور خطوط کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔فرانس کے حکمرانوں نے تحفے میں ایک بال بھیجی وہ بھی خط کے بغیر ،بہت سوچ بچار کے بعد ماہرین نے اس تحفے کا یہ نتیجہ نکالا کہ بادشاہ کے ابھی کھیلنے کے دن ہیں اسے حکومت نہیں کرنی چاہیے ۔خان صاحب کے ساتھ یہی معاملہ ہے کہ وہ نہ سنتے ہیں ،نہ سمجھتے ہیں بس بولتے ہیں اور پھر ڈٹ کر کہتے ہیں کہ ”اور بہت مل جائیں گے ادب و آداب والے ،ہم آوارہ ہیں تلخ ہی بولیں گے “یہ محض اتفاق نہیں خان صاحب کی شعلہ بیانی ہمیشہ ہی قابل گرفت ٹھہرتی ہے پھر بھی طرز گفتار میں تبدیلی نہیں آتی۔بد قسمتی کے ساتھ جو پیسہ اور طاقت پا لیتا ہے وہ سیاسی میدان کا پہلوان بن جاتاہے اور عوام سرپربٹھا لیتے ہیں کہ کمزور عقیدہ آج بھی طاقتور کو پوجتے ہیں ۔قومی و ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف جھوٹ ، الزام تراشی اور ہرزہ سرائی تو جیسے سیاسی رہنماﺅں کا ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو چل گیا تو ٹھیک ورنہ سیاسی بیان کہہ کر یا معافی مانگ کر جان چھڑوا لیتے ہیں ۔عمران خان کی بھی کوئی پہلی مرتبہ نہیں انھوں نے دھاندلی میںملوث ہونے کا الزام جسٹس افتخار چودھری پر لگایا اور نوٹس ملنے پر غیر مشروط معافی مانگی ،پینتیس پینکچروں کو بھی سیاسی بیان کہہ کر جان چھڑائی ،الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر الیکشن کمیشن کی کو غیر رضامند پایا تو اپوزیشن کا آلہ کار قرار دیا اوربات بڑھی تو معافی مانگ لی ۔ یعنی پی ٹی آئی قیادت کے غیر سنجیدہ رویوں سے سیاسی ابواب سیاہ ہیں او راب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ خان صاحب صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ بانٹنے لگے ہیں تاہم مبصرین کے مطابق وہ اب پھنس چکے ہیں کیونکہ دو مرتبہ جواب مانگا گیالیکن توجیہات پیش کی گئیں جبکہ یہ حساس معاملہ تھا ۔۔چلیں !جو بھی ہوگا کہ” ہنوز دلی دور است“ حوصلے اتنے بلند نہیں ہونے چاہیے اور ریاست سے ٹکرانے کا عندیہ دینا انتہائی غیر سنجیدہ بات ہے کہ تاریخ اقوام عالم ایسے افراد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جنھیں عوامی حمایت حاصل تھی مگر قید خانوں میں تنہا ہی مر گئے او ر کوئی ملنے بھی نہ گیا ۔باقی بات ساری انصاف کی بلا تفریق تقسیم کی ہوتی ہے کہ کریسٹیانو رونالڈونے ایک نہیں تین عالمی کپ جیتے اس کے فالوورز کی تعداد سو ملین سے زیادہ ہے کہ خان صاحب کی تو اس کے مقابلے میںکچھ بھی نہیں لیکن عدالت نے اسے جیل کی سزا سنائی اور بھاری ترین جرمانے کے عوض معافی ہوئی ۔۔ دور نہ جائیں پاکستانی تاریخ کے ابواب پلٹیں تو میاں نواز شریف نے اداروں سے محاذ آرائی کیوجہ سے ہمیشہ نقصان اٹھایا،عمران خان نے میاں صاحب سے سبق نہیں سیکھا بلکہ اپنا آئیڈیل بناتے ہوئے ان سے چار گنا آگے جا چکے ہیں، ایسی شعلہ بیانی ہے کہ الامان الحفیظ ۔۔کہاں دنیا برملا اعتراف کرتی ہے کہ مسلمانوں نے یورپ کو تہذیب و شائستگی کی دولت سے ہی نہیں نوازا بلکہ شخصیت کی تعمیر وکردار کے لئے بنیادیں فراہم کیں ،جنگل کے قانون کی جگہ ابن آدم کو شرفِ انسانی کی توقیر بخشی تو اس وقت جو غیر ذمہ دارانہ اور نامناسب گفتگو ہر کوئی کر رہا ہے وہ کسی اچھی تہذیب کی آئینہ دار نہیں ہے اگر مساجد میں تبلیغ جاری رہے اور معاشرے کی اصلاح نہ ہو تو ایسی تبلیغ قابل اصلاح ہے۔ بحر کیف خاموش آہیں رائیگاں نہیںجاتیںاور آپ سبھی ٹھیک کہتے ہیں کہ سزائیں دی نہیں جارہیں دلوائی جا رہی ہیں کیونکہ یہ سب تو دو جہانوں کا مالک کنٹرول کر رہا ہے۔آج جیسے عمران خان کہہ رہاہے کہ میں حق کے لیے لڑ رہا ہوں تو کل میاں صاحب کہہ رہے تھے کہ معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے اب وہی جو فیصلہ کرے گا ہمیں قبول ہوگا تو میںنے لکھا تھا کہ اسے کہو کہ ثبوت پختہ کرے ،اب بات خدا تک جا پہنچی ہے ۔۔تو عرض یہ ہے کہ عمران خان نے تو سیاست میں جس طرح دین کا استعمال کیا ہے حدود سے تجاوز کر چکے ہیں اور علمائے کرام انھیں تنبیہ بھی کر رہے ہیں
اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔باقی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا ہے
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے