چیئرمین کرکٹ بورڈ کے نام کھلا خط
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہماری جو ٹیم سری لنکا جیسی کمزور اور تیسرے درجے کی ٹیم سے دو مرتبہ مسلسل ہار چکی ہے اور افغانستان سے ہارتی ہارتی بچی ہے ،انگلینڈ کے خلاف اور ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے لیے اسی ٹیم کا اعلان کردیا گیا۔مجھے یہ کہنے کا حق دیجئے کہ کرکٹ بورڈ کے جتنے بھی چیئرمین آئے انہوں نے ٹیم کے معیا ر کو بہتر بنانے کی بجائے اپنے ہی چمڑے کے سکے چلائے ہیں ۔ہر شخص کی زبان پر یہی بات ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم کی شکست کا باعث ہمیشہ مڈل آرڈر بلے باز ہی بنتے ہیں ،ایسے ناکام بلے بازوں کو تبدیل کرنے کی بجائے ایک بار پھر انہیں بربادی کا سامان کرنے کے لیے ٹیم میں شامل کرلیا گیا ۔میں سمجھتا ہوں رمیز راجہ کا یہ اقدام انتہائی غلط ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین جس شخص کو بنایا گیا ہے اس نے صرف چند میچ کھیلے ہیں جو خود بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کا اہل نہیں ، اسے یہ ذمہ داری دینا سب سے بڑا مذاق ہے ۔ انضمام الحق، جاوید میاں داد جیسے تجرکار اور مایہ ناز کھلاڑیوں کی موجودگی میں محمد وسیم کو سلیکشن کمیٹی کا چیئر مین بنانا سراسر زیادتی ہے ۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ گرا¶نڈ میں گیارہ کھلاڑی پاکستانی قوم کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن 22کروڑ پاکستانی، کرکٹ ٹیم کی ناکامی کی بناپر ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں ، جب ہمارا کوئی کھلاڑی غلط شارٹ کھیل کر آ¶ٹ ہوتا ہے یا ہاتھوں میں آیا ہوا کیچ چھوڑ جاتا ہے تو ساری قوم کے چہرے لٹک جاتے ہیں اور بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ پاکستانی ٹیم کا لائیو میچ نہ ہی دیکھوں ،اس کی وجہ شاہد یہی ہے کہ میں اپنے کھلاڑیوں کی ناکامیوں کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ سب پہلے میں، میں بابر اعظم کی بات کرتا ہوں ۔ ان کا شمار دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے لیکن ایشیا کپ کے دوران باربارجلد آ¶ٹ ہونے کے باوجود انہیں چوتھے نمبر پر بیٹنگ کرنی چاہیئے تھی لیکن وہ ضد کرکے اوپنگ پر ہی بیٹنگ کے لیے آتے رہے اور پانچ دس سکور پر آ¶ٹ ہوکر چلتے بنے ۔ ابتدائی کھلاڑی جلد آ¶ٹ ہونے کی بناپر ساری ٹیم پریشر میں آجاتی ہے ،پاکستانی ٹیم شاید دنیا کی واحد ٹیم ہے جو پریشر میں اس قدر جلد آتی ہے کہ آ¶ٹ ہونے والے کھلاڑیوں کی لائن ہی لگ جاتی ہے ۔ابھی پہلا آ¶ٹ ہونے والا کھلاڑی پویلین نہیں پہنچتا کہ دوسرا کھلاڑی بونگی شارٹ کھیل کر آسان کیچ دے کر چلتا بنتا ہے ۔افغانستان اور سری لنکا جیسی کمزور ٹیموں کے خلاف ہماری ٹیم کی کارکردگی کو پیش نظر رکھ کر ہی انگلینڈ اورٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا اعلان ہونا چاہیئے تھا لیکن پہلے والی ٹیم کا اعلان کرکے ایک بار پھر پاکستانی قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا نے کی جستجو کی جا رہی ہے ۔ فخر زمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت اچھا کھلاڑی ہے لیکن وہ ٹیم کی پوزیشن کے مطابق کھیلنے سے عاری دکھائی دیتا ہے ۔ون ڈا¶ن آنے والے بلے باز بعد میں آنے والے کھلاڑیوںکے لیے راہ ہموار کرتے ہیں لیکن فخر زمان وکٹ پر جم کر کھیلنے کی بجائے بونگیاں مارنا شروع کردیتا ہے اور آسان کیچ دے کرچلا جاتا ہے۔ فیلڈنگ کے دوران اگر بھول کر کوئی کیچ ان کی طرف جاتا ہے تو وہ آسان کیچ کو بھی پکڑنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں ۔کہنے کو وہ عالمی سطح کا کھلاڑی ہے ۔کوئی کوچ اور کپتان اسے یہ نہیں سمجھا سکا کہ ابتداءمیں گرا¶نڈ شارٹ کھیلیں جب کچھ وقت گزر جائے تو بیشک چوکے اور چھکے لگائےں لیکن انکو آ¶ٹ کرنا اتنا آسان ہے کہ کوئی بھی ٹیم لانگ لیگ پر ایک فیلڈرکھڑا کرکے پیچھے ٹپا دے کر اونچی بال کروائے تو وہ اونچی شارٹ مارنے سے کبھی باز نہیں آتے اور مخالف ٹیم کو آسان کیچ دے کر آ¶ٹ ہوجاتے ہیں ۔باقی رہی گئی افتخار کی بات ۔ تو اس کھلاڑی کو آل را¶نڈر کہنا ہی آل را¶نڈر کی توہین ہے،اسے جتنی مرتبہ بھی ٹیم میں شامل کیا گیا وہ بڑا سکور کرنے سے ہمیشہ ناکام رہا ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ ہر مرتبہ ٹیم میں بڑے اعزاز کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے اس کے پیچھے بہت بڑی سفارش ہے جس کے بل بوتے پر وہ اکثر ٹیم کا حصہ بن جاتا ہے ۔یہی حال آصف کا ہے، انہوں نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ دوبئی کے میچ میں اچھی اننگ کھیلی تھی، اس کے بعد وہ آٹھ دس سکور سے آگے نہیں بڑھتا اور باقی میچ پویلین میں بیٹھ کر شائقین کی طرح انجوائے کرتا ہے ۔میرے نقطہ نظر سے یہ دونوں کھلاڑی کسی بھی طرح قومی ٹیم میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔ رمیز راجہ سے درخواست ہے کہ اگر انگلینڈ اور ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مڈل آرڈر بلے بازوں میں شعیب ملک ، حارث سہیل اور محمد حفیظ کو شامل کرنا ہو گا جبکہ بابر اعظم کو اوپننگ کی بجائے چوتھے نمبر پر بیٹنگ پر بھیجا جائے ۔اوپننگ اور ون ڈا¶ن کے لیے عبداللہ شفیق اور شان مسعود کو ٹیم میں شامل کیا جائے ۔