سید قسور گردیزی کی شخصیت کا ادبی پہلو
سید محمد قسور گردیزی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک اور نفیس انسان تھے۔ ان کی شخصیت کے سیاسی پہلو سے تو سبھی واقف ہوں گے لیکن ان کے علمی و ادبی حوالے سے بہت کم لوگوں کو واقفیت ہو گی۔ قسور گردیزی کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اصولوں کی خاطر کبھی مصلحت یا مفاد پرستی کو ترجیح نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقلال میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ وہ جابرانہ نظام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہمیشہ جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے کام کرتے رہے اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اپنی سیاسی سوچ سے اختلاف رکھنے والوں کو بھی احترام کا درجہ دیتے رہے۔ بڑی شخصیات کی زندگی میں اعداد وشمار اور تاریخوں کا بھی خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ ستمبر کا مہینہ اس لحاظ سے بھی قابل ذکر ہے کہ ستمبر میں پاکستانی قوم 6 ستمبر یوم دفاع اور 7 ستمبر کو یوم فضائیہ مناتی ہے اور 11 ستمبر بابائے قوم قائد اعظم کا یوم وفات ہے۔ ان اہم دنوں کے ساتھ قسور گردیزی کا بھی تعلق یوں بنتا ہے کہ 6 ستمبر 1961ءکو وہ پیدا ہوئے اور 11 ستمبر 1993ءکو انہوں نے وفات پائی۔ اگرچہ قسور گردیزی کو جدا ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں لیکن ان کی شخصیت محبت، خلوص، رواداری اور یادوں کے چراغ آ ج بھی جل رہے ہیں اور ان کی شخصیت آ ج بھی آ نے والوں کے لئے روشنی پھیلا رہی ہے شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں ان کی کمی اب بھی محسوس کی جاتی ہے۔ ملتان میں مشاعروں کی داغ بیل ڈالنے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ملک کے ترقی پسند شعراءفیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز جب بھی ملتان آتے ان کے ہاں ہی قیام کرتے۔ یوں ان کا گھر ملتان کا ایک اہم علمی و ادبی مرکز بنا رہتا۔ جہاں شہر کے نمائندہ ادیب و شاعر علوم و فنون کے مختلف موضوعات پر سیر حاصل بحثیں کرتے اور یہاں کئی ادبی تقاریب برپا رہتیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد جیل کی بندشوں اور غیر سیاسی رویوں نے انہیں کھل کر لکھنے اور ادبی ماحول کو نمایاں کرنے کا موقع نہیں دیا لیکن قید و بند کی صعوبتوں کے دوران بھی ان کا شعری ذوق نکھر کر سامنے آتا رہا اور ان کے گھر کی ادبی محفلیں اور رونقیں بحال رہیں۔قسور گردیزی محبت، خلوص اور رواداری کا پیکر تھے۔ ملتان کی روایتی محبت، مہمان نوازی اور اعلیٰ اقدار کا نمونہ تھے۔ ان کی علم و ادب سے محبت اور مطالعے کے شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ذاتی لائبریری میں اس وقت آٹھ ہزار سے زائد کتب موجود ہیں جو اب ان کے بیٹے سید زاہد حسین گردیزی کے پاس موجود ہیں۔ ان نادر اور کمیاب کتب میں مذہب، ادبی، سیاست، سائنس، آرٹس اور بہت سے دیگر موضوعات پر نادر اور نایاب کتب شامل ہیں۔
اس کے علاوہ سیرت النبی پر لکھی گئی نادر کتب کے علاوہ مختلف تفاسیر بھی اس لائبریری کی زینت ہیں۔ مثنویات، طلسم، ہوشربا اور مختلف سیاسی اور ادبی موضوعات کا ذخیرہ بھی اس لائبریری میں موجود ہے۔ مرحوم قسور گردیزی کے بیٹے زاہد گردیزی اپنے والد مرحوم کے اس ادبی ورثے کو جس میں کئی قیمتی کتابوں کے نسخے موجود ہیں کو شہر کے علمی و ادبی حلقوں کی دسترس تک پہنچانے کے متمنی ہیں۔ ان کی ذاتی کوششوں سے قسور گردیزی مرحوم کی ساٹھ کی دہائی کی لکھی ہوئی تحریروں اور ان کی میسر آنے والی شاعری کوکتابی شکل بھی دی جا رہی ہے۔ ان کی مختصر کہانیاں اپنے موضوعات کے اعتبار سے سماجی ناہمواریوں، معاشی استحصال انصاف میں تاخیر اور دوسروں کے حقوق کی حق تلفی کے خلاف احتجاج کی عکاسی کرتی ہیں۔
قسور گردیزی نے اردو کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان میں بھی شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا ان کی ایک نظم قلم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
لکھ اے قلم مونجھی نہ تھی جیندے جیاں دی چال لکھ
آوکھے دماں دا ذکر کر ترٹے دلاں دا حال لکھ
درداں دے قصے کر رقم خون جگر دے نال لکھ
گھر دی نہ ونج لڑھدی نہ ونج کوئی تاں دل دی گالھ لکھ
سید محمد قسور گردیزی مرحوم کے اردو اشعار ان کے بلند پایہ شاعر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ 1968ءمیں جب انہیں دل کا دورہ پڑا تو انہوں نے برملا یہ کہا کہ
غیر تو غیر ہے گلہ کیسا
تو تو اپنا ہے نہ ستا اے دل
ان کے اشعار میں تازگی اور ندرت خیال کا پہلو خاصا نمایاں ملتاہے۔ چند اشعار نذر قارئین ہیں۔
نیند آنکھوں سے اس طرح بھاگی
جیسے تم جا کے پھر نہیں آئے
ہر دور کا سقراط یہاں زہر بلب ہے
شاید یہی انسان کی عظمت کا سبب ہے
اپنا احوال فرشتوں نے لکھا ہے قسور
ہم کیوں اوراق کو شرمندہ تعبیر کریں
ان کے شعری رویوں کی آنچ اور اصل حقیقت کا اندازہ ان کی کلیات آنے پر ہی ہو پائے گا جو یقینا میدان ادب میں ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہو گا۔