• news
  • image

آئندہ وزیراعظم کون ہو گا؟؟؟؟

آئندہ وزیراعظم کون ہو گا، یہ وہ سوال ہے جو ہر موقع پر ہر محفل میں موضوع بحث ہے۔ ہر سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اب ان کا دور شروع ہونے والا ہے۔ پلک جھپکنے میں سب کچھ بدلے گا اور ان کی حکومت ہو گی۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی یہی سمجھتی ہیں کہ اگلی باری ان کی ہے۔ اقتدار کی اس کشمکش میں سیاست دان یہ بھول چکے ہیں کہ آخر ملک کا کون سوچے گا، ملک کے بہتر مستقبل کے لیے قربانی کون دے گا ایک ایسا وقت جب کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، سانس لینا دشوار ہے، زندگی جہنم بنی ہوئی ہے اوپر سورج ہے نیچے ہر طرف پانی ہے، ایک طرف کھائی اور ایک طرف کنواں ہے۔ کہیں بھی سکون نہیں ہے، سیلاب نے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو بریک لگا دی ہے، لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں، پہننے کے لیے کچھ نہیں، بے سر و سامانی کا عالم ہے، اچھے بھلے لوگ خالی ہاتھ ہو گئے، بچے بلک رہے ہیں، بیماریوں کا شکار بن رہے ہیں، گھر تباہ ہوئے، بے گھر ہو گئے، بھوک ستاتی ہے، اپنا گھر یاد آتا ہے اور آنکھوں کے سامنے ہونے والی تباہی سکون نہیں لینے دیتی، میڈیا دکھا رہا ہے کہ پاکستان کے بڑے حصے میں سیلاب سے آنے والی تباہی نے دنیا کو بھی متاثر کیا ہے۔ جو پانی سے بچتا ہے اسے وبائی امراض گھیر لیتی ہیں۔ حکومت کے لیے فوری طور پر متاثرین کے مسائل حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ امداد آ رہی ہے لیکن امداد کا متاثرین تک بروقت پہنچنا ضروری ہے۔ شفاف انداز میں حقیقی متاثرین کو معمول کی زندگی کی طرف لانا بڑا ہدف ہے۔ اس وقت ملک میں اگر کوئی خبر ہونی چاہیے تو وہ صرف سیلاب اور سیلاب متاثرین کی حالت اور ان کی بحالی کے اقدامات ہیں لیکن بدقسمتی سے ملک میں سیلاب اور سیلاب متاثرین پر وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہیے سیاست دان اپنی لڑائیوں میں مصروف ہیں، صبح، دوپہر اور شام دوائی کے استعمال کی طرح سیاسی بیان بازی کا مقابلہ جاری ہے۔ 
موجودہ حکومت سے حالات سنبھل نہیں رہے، میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف ہیں اور وہ ہر اہم فیصلے سے پہلے لندن میں قیام پذیر بڑے بھائی کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ پر ہونے والی تنقید اس کے فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ شہباز شریف کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ لگ بھگ تیرہ جماعتوں کے اس اتحاد کو لیڈ کرتے ہوئے حکومت چلا رہے ہیں اس غیر فطری اتحاد کا ملک کو فائدہ ہوتا ہے یہ نقصان یہ ایک الگ بحث ہے اور اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن یہ ضرور ہے کہ میاں شہباز شریف نے سب کو ساتھ ملا رکھا ہے۔ ان کے ساتھ ایسے مشیران کرام ہر جگہ موجود ہوتے ہیں جن سے وہ سیاسی اختلاف رکھتے ہیں اور دونوں کی سیاسی سوچ میں بھی خاصا فرق ہے اور وہ مشیران کرم خود کو وزیراعظم ہی سمجھتے ہیں۔ گوکہ وہ عہدے میں وزیراعظم نہیں لیکن وہ خود کو شہباز شریف سے کم طاقتور نہیں سمجھتے۔ مشیران کرام میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ وزیراعظم کی کرسی ان کی وجہ سے ہی قائم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کے بجائے مفاہمت کے راستے پر چلا جائے اور اندرونی طور پر ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ ریاستی اداروں کے لیے مسائل پیدا نہ ہوں۔ وزیراعظم کی ازحد کوشش ہے کہ اداروں کے مابین اتفاق رائے رکھا جائے اور ریاست میں اس حوالے سے عدم استحکام کی فضا پیدا نہ ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میاں شہباز شریف کی یہ حکمت عملی ان کی اپنی جماعت میں ہونے والی تقسیم کو روک پائے گی، کہیں انہیں اقتدار میں رہنے کی قیمت مسلم لیگ ن میں شدید تقسیم کی صورت میں تو ادا نہیں کرنا پڑے گی۔ اس وقت بھی سیاسی حلقے یہ کہتے ہیں کہ "ن" میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے دھڑوں میں تقسیم ہے۔ میری رائے اس سے مختلف ہے۔ اسے دو بھائیوں کا دھڑا نہیں کہا جا سکتا بلکہ مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے افراد کا گروہ ضرور کہا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ کا ایک گروہ فوری حکومت چھوڑنے اور چند ماہ کی ناکامی کا عوامی میدان میں مقابلہ کرنے کو ترجیح دینے کا حامی ہے۔ میاں نواز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ سمیت دیگر اہم سیاسی شخصیات حکومت سے نکلنے کے فسلفے کی حامی ہیں۔ یہ گروہ عوام میں جا کر وہی طرز سیاست اختیار کرنا چاہتا ہے جس پر گذشتہ چند ماہ کے دوران عمران خان چل رہے ہیں۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور مسلم لیگ نون کا یہ گروہ اسی انداز میں سیاست کرنے کا حامی ہے۔ جب کہ دوسری طرف میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر سیاسی رہنما حکومت میں رہتے ہوئے حالات قابو کرنے کی کوششیں کرنے کے حامی ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی سڑکوں پر ہے، جلسے کر رہی ہے اور ملک میں لوگ مر رہے ہیں۔ کیا یہ طرز سیاست یا پھر اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھنا ملکی مفاد میں ہے اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔
بہرحال یہ سب ذہن میں رکھیں کہ یہ حکومت فوری طور پر کہیں نہیں جا رہی اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بس انتخابات ہونے والے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کر لینی چاہیے تاکہ ان کی زندگی میں سکون آ سکے لیکن ساتھ ہی وہ لوگ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے میاں نواز شریف کی واپسی ہو اور ملکی سیاست میں مریم نواز شریف کو مضبوط سیاسی کردار دیا جائے ان کی یہ خواہش بھی پوری ہونے کے امکانات کم ہیں۔ جو کچھ ان دنوں ہو رہا ہے کہیں نہ کہیں تو اس پر کسی کی مکمل نگاہ ہے۔ سیاست دانوں کی غیر منطقی لڑائیاں کسی اور کو نہیں سب سے زیادہ نقصان سیاست دانوں کو ہی پہنچائیں گی۔ جو خود کو آئندہ وزیراعظم سمجھ رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ کہیں نظر نہ آئیں جنہیں یہ زعم ہے کہ ملک ان کے بغیر نہیں چل سکتا انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں محمد خان جونیجو بھی وزیراعظم بنے، یہاں میر ظفر اللہ خان جمالی اس وقت وزیراعظم بنے جب ان سے زیادہ مضبوط سیاست دان موجود تھے، یہاں شوکت عزیز جنہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا وہ بھی وزیراعظم بنے، یہاں معین قریشی بھی وزیراعظم بن چکے ہیں اس لیے اگر سیاست دانوں نے اپنے سیاسی رویوں اور طرز سیاست پر نظر ثانی نہ کی تو پھر تاریخ خود کو دہرا سکتی ہے۔ اب یہ فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے کہ لڑائی جھگڑوں سے نکلنا ہے یا پھر ایسے ہی الجھتے الجھتے اپنی ہر ناکامی کو اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر عوامی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے وقت ضائع کرنا ہے۔ افواجِ پاکستان ملک کے حساس ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سب کی زندگیاں ملک کی حفاظت کے لیے وقف ہیں۔ اپنی زندگیوں کو ہمارے سکون اور بہتر مستقبل کے لیے قربان کرنے والوں کو سیاسی مقاصد کے لیے متنازع بنانا قومی خدمت ہرگز نہیں ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن