موسمیاتی تبدیلیاں، قدرتی یا مصنوعی؟
سال 2019ء میں جب چین کے ایک شہر سے جان لیوا کورونا وائرس کا آغاز ہوا تو کسی کے وہم و گمان میںبھی نہیں تھا کہ اس وائرس کا دورانیہ کئی سال پر محیط ہو جائیگا اور یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیکر انسانی تباہ کاریوں کی نوبت لاتی رہے گی۔ اس وائرس کے آغاز ہی میں اسکے حوالے سے ایک سنجیدہ بحث بھی شروع ہوئی کہ یہ فی الواقع قدرت کی جانب سے نازل کی گئی ہے یا اسے انسانی تباہ کاریوں کے ایجنڈا کے تحت کسی ملک کی جانب سے مصنوعی طور پر تیار کرکے پھیلایا گیا ہے۔ یہ بحث بالآخر دنیا کی دو بڑی طاقتوں چین اور امریکہ کے مابین انتہائی کشیدگی پر منتج ہوئی۔ امریکہ نے چین پر الزام لگایا کہ اس نے خود یہ وائرس تیار کرکے پھیلائی ہے اور پھر اسی الزام تراشی کے دوران عالمی میڈیا پر چین کی ایک لیبارٹری کی تفصیلات اور تصویریں گردش کرنے لگیں جہاں مبینہ طور پر زہریلے مادے کو کورونا وائرس کے سانچے میں ڈالا گیا اور دانستہ طور پر پھیلایا گیا۔ انہی اطلاعات میں یہ خبر بھی زیر گردش آگئی کہ اس چینی لیبارٹری میں امریکی سائنسدان تحقیقی کام کررہے تھے، اگر کورونا وائرس مصنوعی ہے اور چین کی اسی لیبارٹری میں تیار ہوئی ہے تو پھر یہ امریکہ ہی کی خانہ ساز سازش ہے جسے اس نے چین کو بدنام کرنے کیلئے اسکی ایک لیبارٹری میں اپنے سائنسدان تعینات کراکے انکے ہاتھوں عملی جامہ پہنایا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس بحث میں دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان بھی کود پڑے تھے اور اس بحث کی بنیاد پر کورونا کے مصنوعی ہونے کا تصور راسخ ہو گیا تھا۔ اسی بنیاد پر امریکہ نے چین پر اور چین نے امریکہ پر ہرجانے کے دعوے بھی کئے اور اس فعل کو جنگی جرائم کے کھاتے میں بھی ڈالا گیا تاہم ابھی تک حتمی طور پر یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ کورونا وائرس قدرت کی طرف سے نازل ہوئی آفت ہے یا کسی انسان کے سازشی ذہن کی کارستانی ہے۔ اسی طرح یہ بھی حتمی طور پر طے نہیں ہو سکا کہ یہ وائرس مصنوعی طریقے سے ایجاد کی گئی اور پھیلائی گئی ہے تو یہ ’’کارنامہ‘‘ امریکہ نے سرانجام دیا ہے یا چین نے۔ چونکہ قدرتی آفات کی صورت میں انسانوں کی آزمائش پر ہمارا پختہ عقیدہ ہے اسلئے مسلم دنیا نے کورونا کا اسی تناظر میں جائزہ لیا اور خدا کے حضور سر جھکا کر اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگی جاتی رہی۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر ہمارا اس امر پر بھی یقین ہے کہ اگر کورونا وائرس انسانی ذہن کا ہی شاہکار ہے تو بھی انسانی ذہن کو اس تک رسائی قدرت نے ہی دی ہے چنانچہ ہم اسے قدرت کی طرف سے اپنی آزمائش سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ آنیوالے زمانے میں اس کا کیا مفہوم بنے گا اور کیا نتیجہ نکلے گا وہ تو آنیوالی دنیا ہی جانے اور بھگتے گی مگر اس وقت گلوبل وارمنگ کی شکل میں دنیا کو جن آزمائشوں کا سامنا ہے انہیں محض قدرت کی آزمائش اور وارننگ کے کھاتے میں ڈال کر کسی کی فرسودہ سوچ پر مبنی اسکے جرائم کی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی۔
گزشتہ دہائی سے دنیا کو جس تیز رفتاری کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں اور انکے مضر اثرات کا سامنا ہے وہ ان تبدیلیوں کے پس پردہ محرکات کا ٹھوس بنیادوں پر کھوج لگانے کے متقاضی ہیں اور اب تو زبانیں کھلنے بھی لگی ہیں۔ آج سے کوئی بارہ برس قبل مجھے اپنے بیٹے کے پاس متحدہ عرب امارات جانے کا موقع ملا تو وہاں اچانک غیرمعمولی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایسی بارشوں کو تو اماراتی باشندے ترستے ہیں کہ لق و دق صحرائوں میں خال خال ہی بارشوں کا موسم بنتا ہے۔ ان غیرمعمولی بارشوں کے حوالے سے مجھے میرے بیٹے نے بتایا کہ اس وقت متحدہ عرب امارات کو خشک سالی کا سامنا تھا اس لئے اماراتی حکام نے ٹھوس تحقیق کے بعد مصنوعی بارشوں کا اہتمام کیا ہے۔ یہ بارشیں اتنی شدت سے ہوتی ہیں کہ اماراتی صحرا بھی جل تھل ہو جاتے ہیں۔ ہمارا تو یہی ایمان ہے کہ موسموں‘ بارشوں‘ زلزلوں‘ حیات و ممات اور اس کرۂ ارض پر موجود ہر چیز دست قدرت میں ہے۔ کس کا عروج‘ کس کا زوال‘ کس کی فنا ہونی ہے۔ اسکی قدرت کی ہی کارساز ہے۔ بے شک بارشیں بھی مصنوعی طریقے سے برس گئی ہونگی مگر قدرت نے یہ چیز انسانی ذہن میں ڈالی تو یہ معاملہ بنا۔ گویا:
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا، کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
اگر گزشتہ ایک دہائی سے دنیا کے مختلف خطوں میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کہیں گرمی کا دورانیہ بڑھ رہا ہے اور کہیں سردی بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح کہیں خشک سالی طوالت اختیار کررہی ہے اور کہیں زمین کو لرزانے والے زلزلوں کی شدت کا دورانیہ اور تسلسل بڑھ رہا ہے تو یہ سب نظام قدرت ہی کی کارسازی ہے۔ جس خالق کائنات کی یہ کائنات تخلیق ہے‘ اس کا سبب اور ڈھب بھی تو خالق کائنات کی منشاء کے تابع ہے۔ اس لئے نظام کائنات میں معمول سے ہٹ کر کام یا سرگرمی ہو رہی ہے، کسی قسم کی موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور انسان بہت تیزی کے ساتھ مختلف عوارض کی لپیٹ میں آرہے ہیں تو اس میں سب رضا اور منشاء صرف خالقِ کائنات کی ہے جس کی مرضی کے بغیر کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔
بے شک موسمیاتی تغیروتبدل بھی مصنوعی طریقے سے رونما ہو رہا ہوگا جس کے بارے میں اب مستند عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی سامنے آرہی ہیں اور عالمی قیادتوں کی زبانیں بھی کھل رہی ہیں تو بھی اس تغیروتبدل کی سوچ قدرت کی جانب سے ہی انسانی ذہن میں ڈالی گئی ہے۔ اس تغیروتبدل سے خدا کی مخلوقات کیلئے نقصانات کا اہتمام کرنا ہے یا ان نقصانات کا سدباب کرکے خدا کی مخلوقات کو اس سے بچانا ہے‘ خدا نے آپ کو ذہنِ رسا دیا ہے‘ اس کا ضرور کھوج لگائیے۔
ہم ڈینگی اور کورونا کے ساتھ ساتھ اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں کی بھی بہت شدت کے ساتھ لپیٹ میں ہیں۔ ایسے سیلابوں کے اسباب تو بالعموم ہماری اپنی عاقبت نااندیشیاں ہی گردانی جاتی ہیں۔ اور کچھ سیاستیں بھی کارفرما ہوتی ہیں۔ ہماری عاقب نااندیشی یہ ہے کہ ہم بارشوں اور سیلاب کا پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی جامع نظام ہی وضع نہیں کر سکے۔ ہمیں قدرت نے پانی کی نعمت سے مالامال کیا ہے مگر اسے اپنے فائدے کیلئے کیونکر بروئے کار لانا ہے۔ اسکی ہر تدبیر ہماری عاقبت نااندیشیوں کی نذر ہوتی رہی ہے اور ہماری سیاست یہ ہے کہ ہم سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کا اپنے دشمن بھارت کو موردالزام ٹھہرا کر اپنا پلو بچائے رکھتے ہیں۔ اگر ہم نے بھی بھارت اور چین کی طرح اپنے پانیوں کو ڈیموں کے ذخائر میں محفوظ کرنے کا اہتمام کرلیا ہوتا تو یقیناً ہم بارشی اور سیلابی پانی سے نقصانات اٹھانے کی بجائے اس سے مستفید ہو رہے ہوتے۔ مگر پھر سیاست کیسے ہوپاتی۔
اب سیلاب نے ہماری دھرتی کے وسیع و عریض حصے کو ڈبو دیا ہے اور انسانی بے بسی کی ہزارہا دلدوز داستانیں رقم کر دی ہیں تو ہماری سیاست کو ہمارے ساتھ عالمی ہمدردی کا سہارا بھی مل گیا ہے۔ اس میں یہ عالمی اعتراف تو ہمارے اپنے گناہ دھونے کے اسباب بنا رہا ہے کہ موسموں میں مصنوعی طریقے سے تغیروتبدل پیدا کرکے ہمیں سیلاب کی شکل میں نقصانات سے دوچار کیا گیا ہے۔ اس طرح ہماری اپنی بے تدبیریوں پر تو لمبی چادر پڑ گئی جبکہ ہمارے لئے ہمدردی کے عالمی دروازے کھل گئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس نے پہلے اپنے آفس کے ذریعے دنیا کو ہماری امداد و معاونت پر آمادہ کیا اور پھر خود پاکستان آکر انہوں نے دنیا کو باور کرایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کیلئے انکے اٹھائے گئے مصنوعی اقدامات کے باعث پاکستان کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی تلافی کرنا دنیا کی ذمہ داری ہے‘ پھر یہی اعتراف سمرقند میں منعقدہ شنگھائی کانفرنس میں اس تنظیم کے رکن ممالک کی قیادتوں کی جانب سے کیا گیا۔ سو یہ اعتراف اپنے فائدے کیلئے کسی دوسرے کو نقصان سے دوچار کرنے کا اعتراف ہے۔ سیلاب کی شکل میں بے شک ہم بہت بڑے نقصان سے دوچار ہوئے ہیں مگر اس نقصان کے پس پردہ محرکات میں ہمیں اپنی نااہلیوں‘ بے تدبیریوں اور سیاستوں پر اپنا کتھارسس بہرصورت کرنا ہوگا۔ اس کرۂ ارض پر موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن میں یقیناً بعض ممالک کی جانب سے کئے گئے مصنوعی اقدامات بھی شامل حال ہونگے مگر ان تبدیلیوں کے ممکنہ مضر اثرات سے خود کو بچانے کیلئے ہم نے اب تک کیا تدبر و تفکر کیا ہے اور کون سی حکمت عملی طے کی ہے۔ حضور! کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کی روش سے اب کام نہیں چلے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے دھارے کے ممکنہ مضمرات کو فہم و تدبر کے ساتھ روکا نہ گیا یا ان تبدیلیوں کو اپنے فائدے کیلئے بروئے کار لانے کی کوئی حکمت عملی نہ سوچی گئی تو باقیماندہ دنیا کا تو کچھ پتہ نہیں‘ ہمارا سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیگا۔
زمیں زیرو زبر ہونے کو ہے، میرا کہا لکھ لو
کہ میں اس کے فشارِ زلزلہ پیما میں رہتا ہوں