نیب پہلے نواز شریف پھر مریم کا ایون فیلڈ فلیٹس سے تعلق ثا بت کرے
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیلوں پر نیب پراسیکیوٹر کے دلائل جاری رہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا اب نیب کی باری ہے، نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہاکہ 23 جون 2021ء کو عدالت نے نواز شریف کی اپیل خارج کی، عدالت نے لکھا کہ نواز شریف کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا تھا، عدالت نے یہ بھی لکھا کہ مسلسل عدم حاضری پر عدالت کے پاس اپیل خارج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ آگے بھی پڑھ لیں کہ کیا لکھا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ عدالتی حکم کے مطابق وہ سرنڈر کریں یا پکڑے جائیں تو دوبارہ اپیل دائر کر سکتے ہیں، موجودہ اپیل جرم میں معاونت سے متعلق ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ نواز شریف کی اپیل میرٹ پر خارج نہیں کی گئی تھی، اشتہاری ہونے کی وجہ خارج ہوئی، مریم نواز کی اپیل میرٹ پر سنیں گے، انہوں نے اپنا کیس بنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں کیا قانونی سقم ہیں، اب آپ نے اس کا دفاع کرنا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ اس کیس میں مرکزی ملزم نواز شریف تھے جنہیں اشتہاری قرار دیا جا چکا، اس عدالت نے خود لکھا نواز شریف کو اس کیس میں فئیر ٹرائل دیا گیا، عدالت نے لکھا باقاعدہ ٹرائل کے بعد نواز شریف کو سزا سنائی گئی تھی، مرکزی ملزم اب نہ عدالت کے سامنے ہیں نہ ان کی اپیل موجود ہے، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کا کردار مرکزی ملزم کی معاونت کا تھا، عدالت نے کہا کہ نوازشریف کا کیس ہمارے سامنے نہیں تو یہ مطلب نہیں ان پر فرد جرم ٹھیک ثابت ہو گئی، مریم نواز کے وکیل نے میرٹس پر دلائل دیئے آپ میرٹس پر جواب دیں۔ پراسیکیوٹر نے کہاکہ مریم نواز کے خلاف نواز شریف کی اعانت کا چارج فریم کیا گیا تھا، نیب پراسیکیوٹر نے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ فیصلوں کا حوالہ دیا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ سپریم کورٹ نے جو آبزرویشن دیں اس کا آپ کو ابھی فائدہ نہیں ملنا، نیب کو تمام الزامات آزادانہ طور پر ثابت کرنے تھے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ سپریم کورٹ کی وہ آبزرویشن ٹرائل سے پہلے تک تھیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر یہ کیسز بنائے گئے تھے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ہم نے تو ٹرائل پروسیڈنگ کو دیکھنا ہے، سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ریفرنس دائر اور ٹرائل ہوا، ریفرنس اپنی strength پر چلنا ہے، اس اپیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ یہ تو اس کیس کا بیک گراؤنڈ ہے، اب آپ آگے چلیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جے آئی ٹی کے بعد نیب نے بھی مزید تفتیش کی؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایاکہ نیب نے بھی آزادانہ تفتیش کی، ملزموں کو کال اپ نوٹسز بھجوائے گئے، مریم نواز نے نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے میں معاونت کی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ نے بتانا ہے کہ مریم نے کس انداز میں نواز شریف کی معاونت کی؟، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کیخلاف آپ کا کیس کیا ہے ایک لائن میں بتائیں۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز نے والد کی جائیداد بنانے اور چھپانے میں معاونت کی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے پھر بتانا ہے1993 میں مریم نواز نے جائیداد لینے میں مدد کی، یا تو آپ بتائیں مریم نواز کا کردار 1993 میں جائیداد لینے میں تھا، یا پھر بتائیں ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر اس جائیداد کو بنانے میں 2006میں مدد کی۔ جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے کہاکہ آپ خود کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر اثاثے بنانے میں معاونت کی تو پھر ٹرسٹ ڈیڈ اور کیلبری فونٹ کو چھوڑ کر 1993 سے چلیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم اس معاملے کو 2006 میں ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ لے کر چلیں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پھر تو 1993 میں مریم نواز کا کوئی کردار نہیں ہوا، ہم نے ایک فیصلہ لکھنا ہے تو ہمیں سب چیزوں میں کلیئر ہونا چاہیے، یہ اپارٹمنٹس کیسے خریدے گئے؟۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول نے یہ اپارٹمنٹس خریدے۔ عدالت نے کہاکہ اگر ٹرسٹ کو نکال دیں تو پھر نیب کا کیا کیس ہے؟، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ ہی مریم نواز کا کیس دیکھا جانا ہے، مریم نواز نے 2006 میں مدد اور معاونت کی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے 1993 میں اثاثے خریدے اور چھپائے، آپ نے پھر شواہد سے ثابت کرنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی مدد اور معاونت کیسے کی؟۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم وہ ٹریک کلیئر کر رہے ہیں جس پر آپ نے آگے جانا ہے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیلسن اور نیسکول برٹش ورجن آئی لینڈ کے پاس رجسٹرڈ ہیں، نیلسن اور نیسکول نے 1993، 1995 اور 1996 میں اپارٹمنٹس خریدے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا ابھی ان اپیلوں کے لیے یہ سوال متعلقہ ہے کہ یہ پراپرٹیز کیسے خریدی گئیں؟، پہلے آپ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ پراپرٹیز نواز شریف نے خریدیں، اگر وہ پراپرٹیز خریدی گئیں تو پھر اس میں معاونت کا الزام آئے گا، ہم مفروضے پر نہیں جا سکتے، ہم نے حقائق کو دیکھنا ہے، اگر آپ نے ٹرائل کورٹ میں یہ ثابت کیا ہے تو وہ بتائیں۔ پراسیکیوٹر نے کہاکہ میں نواز شریف کے کیس سے شروع کروں گا پھر مریم نواز پر آئوں گا، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ حقائق لیکن یہی ہیں کہ نواز شریف کی حد تک نیب کورٹ کا فیصلہ برقرار ہے، نوازشریف نے سپریم کورٹ میں ایک واضح موقف لیا تھا۔ عدالت نے کہاکہ نوازشریف نے کیا کہیں بھی کہا تھا یہ جائیداد ان کی ہے؟۔ اس موقع پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر نہیں کہا جائیداد ان کی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نواز شریف اسی گھر میں وہاں جا کر رہتے تھے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ پاکستان میں آدھے لوگ دوسروں کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نواز شریف اور ان کے بچے وہاں پر رہ رہے تھے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پبلک نالج کی کسی بات پر آپ کو burden شفٹ تو نہیں ہو جاتا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ فی الحال صرف پراپرٹی کی ملکیت کو نواز شریف سے لنک کر دیں، یہاں تو آدھا پاکستان دوسروں کے گھروں میں رہ رہا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ چار فلیٹس کی اونرشپ پر کسی کا کوئی اعتراض نہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے یہ سمجھائیں کہ 1993 میں نیلسن اور نیسکول کا نواز شریف سے کیا تعلق تھا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ نیلسن اور نیسکول کا ٹائٹل ڈاکومنٹ دکھائیں، ولایت میں بھی کوئی اتنا اچھا نہیں کہ فری میں کوئی پراپرٹی دے، وہ پیمنٹ کس نے کی؟۔ آپ کے بقول کمپنیوں نے نواز شریف کی طرف سے پیمنٹ کی؟، آپ نے ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف نے پیمنٹ کی اور ان کے بینیفشل اونر نواز شریف ہیں، یہ بھی بتائیں کہ اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے ادائیگی نواز شریف نے کی، نواز شریف کا کمپنیوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں، کمپنیوں کا فلیٹس کے ساتھ تعلق ثابت کریں، فلیٹس 1993 میں خریدنا ثابت کریں، پھر مریم نواز کا فلیٹس سے تعلق ثابت کریں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس سے زیادہ آسان زبان میں نیب سے سوال نہیں کرسکتے۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہماری آج کے لیے بس ہوگئی ہے۔ دلائل جاری رہے اور عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 29 ستمبر تک کیلئے ملتوی کردی۔