اسلام آباد ہائی کورٹ نے نا رووال سپورٹس سٹی ریفرنس میں احسن اقبال کو بری کر دیا
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژن بنچ نے لیگی رہنما وفاقی وزیر احسن اقبال کو نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس میں بری کرنے کا حکم سنادیا۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ اس میں کرپشن کہاں ہوئی وہ بتائیں؟، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ سے پوچھا تھا بتائیں اس کیس میں کرپشن کیا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نہیں آپ کو التوا نہیں ملے گا، نامعلوم اخبار پتہ نہیں کہاں سے اٹھا کر اس وقت کارروائی کی، یہ منصوبہ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی منظوری سے بنا، اس کیس کے تفتشیی کو پتہ بھی نہیں تھا سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے بغیر معلوم کیے کہ سی ڈی ڈبلیو پی ہوتی کیا ہے ریفرنس دائر کردیا ہے، جس سیکرٹری کو آپ نے وعدہ معاف گواہ بنایا اس کا بیان دیکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ توکیا احسن اقبال بین الصوبائی رابطہ کے وزیر تھے؟ تو پھر احسن اقبال کے پاس کون سا اختیار تھا جس کا غلط استعمال ہوا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ آپ کا کام نہیں کس منصوبے سے متعلق پالیسی کیا ہو، نارووال چھوٹا شہر ہے یا بڑا وہاں کتنا منصوبہ بننا یہ دیکھنا آپ کا کام نہیں، آپ کو کوئی اتا پتہ ہی نہیں حکومت چلتی کیسے ہے، آپ نے پبلک کا پراجیکٹ روک دیا، اس کے اخراجات میں اضافے کا سبب کون بنا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس میں کرپشن کا کوئی ایک الزام بتا دیں، اگر آپ نقصان کا کہتے ہیں تو آپ نے یہ پراجیکٹ روکا اور نقصان پہنچایا، کیس نقصان کا ہی تھا تو پھر اپنے خلاف کیس کرتے، عدالت نے کہا کہ یہ کہاں کا اخبار ہے اور کیا لکھا تھا اس کو پڑھیں، کیا صرف اس خبر کی بنیاد پر کرپشن کا کیس بنا دیا گیا؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی ڈبلیو پی میں تیس لوگ تھے کیا ان سب نے کرپشن کی؟، آپ ان کو پکڑتے نا جنہوں نے 2009تک منصوبے کو روکا، تفتیسی صاحب آپ کو بہت زیادہ تربیت کی ضرور ت ہے، آپ لوگوں کی ساکھ کے ساتھ اس طرح کھیلتے ہیں، آپ سے کوئی 15 بار پوچھ چکے ہیں کرپشن کا بتائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو بہت وقت دے چکے، آپ نے احسن اقبال کو کیوں گرفتار کیا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قابل افسر احد چیمہ بری ہو گیا۔ آپ نے تین سال اس کو جیل میں ڈالے رکھا، یہ جو اتنی بدنامی آپ کراتے ہیں اس کا ذمہ کون ہے، مزید مہلت کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بتائیں کہ اس میں کتنی تاریخیں آپ کو دی ہیں، پبلک ویلفیئر کے پراجیکٹ کو جو نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے، عدالت نے کہاکہ وفاقی حکومت آج بھی کئی منصوبے صوبوں میں لگا رہی ہے،کیا اب انہیں بھی پکڑیں گے؟، ایک خبر پر آپ نے پراجیکٹ ہی رکوا دیا؟،کہا گیا جی انڈیا کے بارڈر سے تھوڑا ہی دور منصوبہ بنا ہے، کیا آپ کو بھیجتے کہ دیکھیں بارڈر سے کتنا دور ہے؟، اگر بارڈر کے قریب بھی تھا تو اس میں کرپشن کیا تھی؟، 2009ء میں جنہوں نے دوبارہ منصوبہ شروع کیا انہیں پکڑتے نا، 2009ء میں تو احسن اقبال پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے، کیا آپ نے پنجاب حکومت سے تفتیش کی کہ آپ کا منصوبہ وفاق کیسے لے گیا؟۔ کیا چیف سیکرٹری پنجاب سے آپ نے پوچھا، سیکرٹری کوئی بچے ہوتے ہیں جن پر دبائو ڈالا جا سکے؟۔ چیف جسٹس نے کہا یہ کورٹ نئے آرڈیننسز کا سہارا نہیں لے گی، آپ غلط کیسز بناتے ہے، آپ غلط کیسز بناتے ہیں تو پھر جب یہ غلط کیسز ڈیکلیئر ہوتے ہیں تو اس کا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے احسن اقبال کی بریت کیلئے دائر درخواست منظور کرتے ہوئے احسن اقبال کو نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس سے بری کرنے کا حکم سنادیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ مسلم لیگ ن اور اس کے رہنمائوں کو ناجائز قیدو بند میں رکھا گیا اور عمران خان کے کہنے پر نیب ہر حد تک گئی۔ انہوں نے کہا کہ احسن اقبال کی بریت سے دونوں حقائق ثابت ہو گئے۔ احسن اقبال جیسے شریف اور ایماندار شخص کی دیانت داری پوری قوت سے ثابت ہو گئی۔